مھسا امینی قتل: ایران میں مظاہرین بے قابو، درجنوں جاں بحق، پولیس سڑکوں سے غائب

ایران میں مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد خواتین نے اپنے حجاب اتار دیئے جبکہ یونیوسٹی طلباء نے اپنے اسکارف نذر آتش کردیئے، خواتین و مرد  نے عملی طور پر ایران کی سڑکوں  پر اپنا راج قائم کرلیا ہے، ایرانی پولیس اور سیکیورٹی ادارے  سڑکوں سے غائب ہوچکے ہیں ۔ پر تشدد مظاہروں میں درجنوں افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں

ایران میں حجاب نہ کرنے کے گرفتار لڑکی مھسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہروں میں روز بروز شدت آتی جارہی  ہے۔ ایرانی خواتین نے اپنے حجاب اتار کر ایرانی سڑکوں پر حکومت کو کھلا چیلنج کردیا ۔

ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر گرفتار 22 سالہ نوجوان لڑکی مھساامینی کی موت کے بعد ایران میں خواتین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنے حجاب اتار دیئے جبکہ پولیس مظاہرین سے گھبرا کر سڑکوں سے غائب ہوگئی ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

حجاب نہ پہننے پر گرفتار لڑکی کی دوران حراست موت کے بعد ایران میں حالات کشیدہ

کرد  نسل کی 22 سالہ نوجوان لڑکی مھسا امینی کو رواں ماہ حجاب نہ پہننے پر گرفتار کیا گیا تھا اس دوران انکی موت واقع ہونے کے بعد ملک میں  2019 کے بد ترین مظاہروں کے بعد سب سے بڑے احتجاج نے ایران کی سڑکوں پر جنم لے  لیا ۔

ایران کے سرکاری ٹیلیویژن کے مطابق مظاہروں میں کم ازکم 41 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق ہلاک افراد کی تعداد حکومتی اعداد و شمار کے کئی زیادہ ہے۔ اب تک 80 کے قریب افراد کی ہلاکت کا اطلاعات ہیں ۔

ایران میں روز بروز مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا جبکہ منتشر ہجوم پولیس کے قابو سے باہر ہوگیا ہے جس کے باعث ایرانی پولیس سڑکوں سے غائب ہوگئی ہے جبکہ مختلف  شہروں میں عملی طور پر مظاہرین کا راج قائم ہوگیا ہے ۔

سبز و سفید رنگ کے ایرانی  پولیس کے گشتی ٹرک جوکہ اسلامی لباس کی خلاف ورزری پر خواتین کو گرفتار کرکے اخلاقی مراکز لیجاتے تھے وہ تمام بھی سڑکوں کو نظر نہیں آرہے ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پہلی دفعہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کی علامت کے طور پر تہران میں مورالٹی پولیس اسٹیشن کے باہر ٹرک بھی نظر نہیں آئے۔

یونیورسٹی کی طلباء نے مھسا امینی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے اپنے حجاب اتاردیئے ہیں۔ کئی جامعات میں لڑکیوں نے اپنے اپنے اسکارف جلا دیئےجبکہ ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا بھی شیئر کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی صدر کا اسکارف نہ پہننے پر سی سی این کی اینکر کو انٹرویو دینے سے انکار

ایران کے ماہر عمرانیات عماد افروج کا کہنا ہے کہ نوجوان جو پہلے ہی غربت اور عدم مساوات جیسے بے پناہ معاشی مسائل کا شکار ہیں ان کا غصہ بھی موجودہ احتجاج میں شامل ہوگیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ایسی چیز کا آغاز کیا جس کا کوئی انسانی، اخلاقی، منطقی اور قانونی جواز بھی نہیں تھا۔ پولیس اہلکار  کا ایک عورت کو گاڑی میں پھینکنا غیرانسانی اور غیراسلامی ہے۔

انہوں نے ان تمام تر معاملات کا ذمہ دار سابق صدر محمود احمدی نژاد اور انکے ماتحت افراد کو ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گائیڈنس پولیس کو مورل پولیس نے انہوں نے تبدیل کیا  جو کہ بہتر نہیں تھا ۔

 عماد افروج نے بتایا کہ پولیس کے اعلیٰ افسران  بھی اس ذمہ داری سے نالاں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کا لباس اوران کے بالوں کا نظام ہماری ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے۔

ایران میں مھسا امینی کی ہلاکت اور اس کے بعد ہونے والے بدترین اور پر تشدد مظاہروں  کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی پولیس نے طالبان کا روپ دھارلیا، نہتی خواتین پر شدید تشدد

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے دو ماہ قبل انہوں نے سر پر اسکارف پہننے کے فرض کا دفاع کیا تھا۔ انہوں نے کہا  تھا کہ اسلامی نقاب خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔

ایرانی ترقی پسند سیاسی رہنما غلام رضا نوری غزالجا نے کہا کہ مذہبی عقائد لاٹھیوں، گرفتاریوں سے نافذ نہیں کیے جاتے۔ ہم لوگوں کو زبردستی جنت میں نہیں لے جاسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ ایران کی پولیس کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والی 22 سالہ نوجوا ن لڑکی مھسا امینی کردستان سے تہران جارہی تھی کہ اس دوران اسے حجاب نہ  کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے دوران حراست لڑکی کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا ۔

عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ امینی کو پولیس وین کے اندرمارا پیٹا گیا تاہم پولیس نے تشدد کی تردید کی ہے۔ گرفتاری کے بند گھٹنے بعد امینی کے اہلخانہ کو بتایا گیا کہ امینی کو دل کا دورہ پڑا ہے جسے کسرہ اسپتال منتقل کیا گیا ہے جہاں اسے طبی امداد فراہم کی جارہی ہے ۔

عالمی جریدے گارڈین کے مطابق امینی کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی وہ مکمل طورپر سحت مند تھی جس وقت اسے حراست میں لیا گیا تھا۔ اہلخانہ نے بتایا کہ پولیس نے کہا تھا کہ اسے حجاب کی تعلیمی سیشن کے بعد رہا کردیا جائے گا ۔

متعلقہ تحاریر