بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی کے موٹروے کی 785کنال اراضی پر قبضے کا انکشاف

بحریہ ٹاؤن نے این ایچ اے کی 491 کنال اراضی پر قبضہ کرکے 2020 میں انٹرچینج تعمیر کیا تھا، ڈی ایچ اے سٹی نے 294 کینال زمین پر ایک انٹر چینج اور داخلی سڑک تعمیر کی تھی، آڈٹ حکام نے مئی، جون 2021 میں معاملے کی نشاندہی کی تھی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دو رئیل اسٹیٹ اداروں بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی(ڈی ایچ اے) نے کراچی،حیدرآباد (ایم نائن) موٹر وے  کی 785 کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔

انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے مالیاتی امور کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے آڈیٹرز کےعلم میں آیاکہ بحریہ ٹاؤن کراچی این ایچ اے کی  491 کنال اراضی اور ڈی ایچ اے سٹی کراچی 294 کنال اراضی پر قابض ہے۔

موٹروے ایم نائن 136کلومیٹر لمبی 6رویہ سڑک ہے جو کراچی کو حیدرآباد سے ملاتی ہے۔ یہ سڑک2015 اور 2018 کے درمیان موجودہ سپر ہائی وے کو توسیع دے کر تعمیر کی گئی تھی، یہ موٹروے کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے نکلنے والے تجارتی ٹریفک کو بھی  ملک کے دیگر حصوں تک پہنچاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بحریہ ٹاؤن پر شرپسندوں کا حملہ، حکومت خاموش تماشائی

سندھ اسمبلی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف قرارداد جمع

آڈٹ رپورٹ میں پتا چلا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی نے ایم نائن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی 491 کنال اراضی کو”  این ایچ اےحکام کی منظوری اور لیز کے معاہدے کے بغیر“ انٹرچینج کی تعمیر کے لیے استعمال کیا۔

آڈٹ حکام کے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈی ایچ اے سٹی نےایم نائن کے دونوں اطراف این ایچ اے کی زمین/رائٹ آف وے پر تقریباً 3 کلومیٹر سرکاری اراضی  کو استعمال کرتے ہوئے ایک انٹرچینج اور داخلی سڑک تعمیر کی۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ”294 کنال زمین ڈی ایچ اے کی جانب سے این ایچ اے حکام کی منظوری اور لیز کے معاہدے کے بغیر غیر قانونی طور پر استعمال کی گئی“۔

رپورٹ کے مطابق آڈیٹرز نے مئی،جون 2021 میں اس معاملے کی نشاندہی کی لیکن این ایچ اے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بار بار کی درخواستوں کے باوجود محکمانہ آڈٹ کمیٹی نے اس آڈٹ پیرا کی جانچ پڑتال کے لیے اپنا اجلاس نہیں بلایا۔آڈیٹرز نے این ایچ اے پالیسی کے مطابق واجبات کی وصولی کے ملوث افسران  پر ذمہ داری کے تعین کے لیے انکوائری کی سفارش کی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزرگاہ کے حق کے تحفظ اور تجارتی استعمال کے لیے ریگولیٹری فریم ورک اور معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کو این ایچ اے کی کمرشلائزیشن، رائٹ آف وے کے تحفظ کی پالیسیوں پر عمل درآمد  کرتے ہوئے  ہوٹلز، موٹلز، ریسٹورنٹس ، کارخانوں، نرسریز، دکانوں، کھوکھوں، گوداموں اویا بل بورڈز اور یوٹیلیٹی لائنز کی تنصیب کیلیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ  گزر گاہ کے  حق کا تجارتی استعمال اخلاقی طور پر لوگوں کی مذہبی یا علاقائی حساسیت کے خلاف تھا۔بحریہ ٹاؤن  نے فروری 2020 میں ایم نائن  پر اپنا انٹرچینج تعمیرکیا۔ 8 کلومیٹر طویل منصوبے میں تین انڈر پاسز، ایک سے زیادہ سلپ روڈ، داخلی سڑکیں اور سروس روڈزایم نائن پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ضلع ملیر کی اراضی کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کر لی تھی اور نیب کو تین سال قبل اس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس سال کے شروع میں نیب کے چیئرمین سے پراپرٹی ٹائیکون پر نامناسب احسان کرنے پر اعتراض بھی کیا تھا اور اسے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے موصول ہونےو الے  140 ملین پاؤنڈ  بحریہ ٹاؤن کراچی کے رہائشی منصوبے  کے عوض  460 ارب روپے  کے جرمانے میں شامل کرنے کی اجازت دی تھی ۔

قومی احتساب بیورو نے حال ہی میں سابق مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر اور وفاقی کابینہ کے سابق ارکان کو مذکورہ تحقیقات کے سلسلے میں طلب کیا ہے۔

متعلقہ تحاریر