لیسٹر میں ہندو مسلم بدامنی کو غیرمستند بھارتی ٹوئٹر اکاؤنٹس سے ہوا دینے کا انکشاف

لیسٹر میں فسادات کے دوران ٹوئٹر پر تقریباً 500 غیر مستند اکاؤنٹس نے تشدد کو فروغ دینے والی میمز اور آگ لگانے والی ویڈیوز شیئر کی تھیں، رٹگرز یونیورسٹی کی تازہ تحقیق میں دعویٰ

برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہندو مسلم بدامنی کو بھارت سے چلنے والے ٹوئٹراکاؤنٹس سے ہوادیے جانے کا انکشاف  ہواہے۔

برطانوی جریدے بلومبرگ کو دستیاب حالیہ تحقیق کے مطابق  رواں برس کے وسط  میں برطانیہ کے باہر سے چلائے جانے والے جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹس نے لیسٹر میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

دہلی: گرل فرینڈ کے جنونی قاتل آفتاب پونا والا کے مزید سنسنی خیز انکشافات

بھارت میں پاکستانی روح افزا کی آن لائن فروخت پر مکمل پابندی عائد

Rutgers یونیورسٹی کے نیٹ ورک کنٹیجین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس سال اگست کے آخر اور ستمبر کے اوائل کے درمیان لیسٹر میں فسادات کے دوران ٹوئٹر پر تقریباً 500غیر مستند اکاؤنٹس نے تشدد کو فروغ دینے والی میمز اور آگ لگانے والی ویڈیوز شیئر کی تھیں۔

رواں سال 27 اگست کو روایتی  حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے بعدلیسٹر میں سیکڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، جن میں سے کچھ نے لاٹھی ، ڈنڈوں سے لیس   تھے جنہوں نےسڑکوں پر  شیشے کی بوتلیں  بھی پھینکیں  ۔

لیسٹر شائر پولیس کے مطابق جھڑپوں کے دوران گھروں، کاروں اور مذہبی علامات کو  توڑ پھوڑکا نشانہ بنایا گیا  اور یہ سلسلہ ہفتوں تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں 47 گرفتار ہوئے۔

سوشل میڈیا پر مساجد کو نذرآتش کیے جانے اور اغوا کے دعوؤں کی ویڈیوز سے دھوم مچی ہوئی تھی، جس نے پولیس کو انتباہ جاری کرنے پر مجبور کیا کہ لوگ آن لائن غلط معلومات پر یقین نہ کریں۔ محققین نے کہا کہ بدامنی کو ہوا دینے والے  بہت سے ٹوئٹر اکاؤنٹس   کی ابتدا بھارت میں ہوئی ہے۔

 وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو اکثریتی انڈیا میں مسلم مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ ملک سے باہر کے ہندو، جن میں سے کچھ ہندوستانی نہیں ہیں، ہندوتوا)ایک قسم کی ہندو قوم پرستی (کو مانتے ہیں۔

محققین نے کہا کہ مسلمان مردوں پر ہندوؤں کے حملے کی ابتدائی وڈیو  نے غیرمصدقہ دعوؤں کو جنم دیا اور اس  کے نتیجے میں سیاسی طور پر متحرک مقامی نوجوانوں کے جذبات کو بڑھاوا ملا۔نتائج کے مطابق اس ویڈیو نے غیر ملکی اثر و رسوخ  کےحامل نیٹ ورک کی دلچسپی  حاصل کی  اور اس نیٹ ورک کی   وجہ سے حقیقی دنیا  میں تشدد نے جنم لیا۔

 این سی آر آئی کے بانی  جوئل فنکلسٹین نے کہا کہ”ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حملہ آوروں اور غیر ملکی کرداروں کے مقامی نیٹ ورکس اب بڑھتی ہوئی نسلی کشیدگی کے درمیان سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا مقابلہ کرتے ہیں ،ہماری تدابیر ایسے عوامل اور ٹیکنالوجی  کی نشاندہی کرتی ہیں جن کے ذریعے جمہوریتوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور اپنی اور اپنی برادریوں کی حفاظت کےمتعلق سیکھنے کی ضرورت ہے “۔

یوٹیوب، انسٹاگرام،ٹوئٹر اور ٹک ٹاک   سے جمع کردہ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے بدھ کو شائع ہونے والی این سی آر آئی رپورٹ میں اس بات کا   انتہائی تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح غیر ملکی اثر و رسوخ  نے مقامی سطح پر غلط معلومات پھیلاکربرطانیہ کے متنوع ترین شہر میں جھڑپوں کو ہوا دی۔

این سی آر آئی کے لسانی تجزیے کے مطابق لفظ”ہندو“ کا تذکر”مسلمان“کے تذکرے سے تقریباً 40 فیصد زیادہ تھااور بین الاقوامی تسلط کے عالمی منصوبے میں ہندوؤں کو زیادہ تر جارح اور سازشی کے طور پر دکھایا گیا تھا۔

متعلقہ تحاریر