سخت معاشی حالات کے باوجود ٹی وی ٹاک شوز کی ترجیح سیاست ہے

تازہ ترین گیلپ اینڈ گیلانی سروے کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے میں صرف 11 فیصد ٹی وی شوز ایسے تھے جن میں معیشت پر گفتگو کی گئی ، جبکہ دیگر شوز میں صرف سیاست پر بحث کی گئی۔

دور جدید اور موجودہ حالات میں میڈیا کسی بھی قوم کے عروج اور زوال کی کہانی لکھ سکتا ہے ، میڈیا اپنی مثبت طاقت سے معاشی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ، لیکن تازہ ترین گیلپ اینڈ گیلانی سروے کے مطابق پچھلے کچھ ماہ میں پاکستانی نیوز چینلز نے ملک کے سب سے بڑے مسئلے "معیشت” پر اس طرح سے فوکس نہیں کیا جس کی ضرورت تھی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے پیغام کے مطابق "گیلپ سروے کے مطابق پاکستان نیوز چینلز کے صرف 11 فیصد شوز ایسے تھے ، جن میں پاکستان کے سب سے بڑے ایشو مہنگائی کو زیربحث لایا گیا ، ورنہ کوئی سیاست بیچ رہا تھا یا پھر الٹے سیدھے ایشو پر شوز میں بحث کی جاتی رہی۔”

یہ بھی پڑھیے

اسٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی، ڈالر اور سونا تاریخ کی بلند ترین سطح پر آگئے

آئل کمپنیز کا بغیر تعطل سپلائی کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ

جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا کہ میڈیا اپنی مثبت سوچ سے معاشی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ، لیکن گیلپ اینڈ گیلانی سروے کو تجزیہ کریں تو سب دھواں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی زمانہ ٹی وی چینلز کا سب سے بڑا ایشو معیشت ہونا چاہتے تھے مگر افسوس ایسا نہیں ہے ، ہر میڈیا ہاؤس کا اپنا ایک ایجنڈا جسے وہ لے کر چل رہا ہے ، ریٹنگ کے چکر میں سیاسی مخالفین کو ایک دوسرے کے سامنے بیٹھا کر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ پھر ان کے کلپ سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر اپ لوڈ کرکے مزے لیے جاتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر رہ گئے ، ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے درآمدات مکمل طور پر رک گئی ہیں ، جس سے اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کی نوید سنائی دے رہی ہے۔

وہ ایشو پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بنا ہوا یعنی معیشت اس پر چینلز نے اس طرح سے فوکس سے نہیں کیا جس کی ضرورت تھی ، یعنی یہ ترجیح ہے ہمارے ٹی وی چینلز کی۔ کسی بھی ملک میں میڈیا کو چوتھا بڑا ستون گنا جاتا ہے جس حکومت گرا بھی سکتا ہے اور بنا بھی سکتا ہے ، مگر شوز کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز سیاسی پارٹیوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کررہے ہیں ، ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کی قیادت کی نظر میں وہی صحافی صحافی جو ان کی حکومت کے گُن گائے اور اس کی سب سے بڑی مخالف جماعت ن لیگ کو کچھ ایسا ہی موقف ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر لانا ہے تو میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈر کو ایک میز پر بیٹھنا ہوگا اور ایک مثبت لائحہ عمل ترتیب دیتے ہوئے مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا ، ورنہ سری لنکا جیسے حالات کچھ زیادہ دور نہیں ہیں۔

متعلقہ تحاریر