غیرمصدقہ آڈیو اور ویڈیو لیکس کا معاملہ: عمران خان کا سپریم کورٹ کے نام خط

چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو لکھے گئے خط میں کیس کی فوری سماعت کی استدعا کی گئی ہے۔ خط میں عمران خان نے 8 اہم ترین سوالات بھی اٹھائے ہیں۔

یکے بعد دیگر منظرِ عام پر آنے والی غیرمصدقہ آڈیو/ویڈیو لیکس کے تدارک کا معاملہ ، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو تفصیلی خط لکھ دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق عمران خان کی جانب سے لکھے گئے خط میں گزشتہ برس اکتوبر میں دائر آئینی درخواست فوری سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عطاء اللہ تارڑ کا سپریم کورٹ سے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ

شکست کے خوف میں مبتلا حکمران انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں، عمران خان

خط میں چیف جسٹس اور معزز جج صاحبان سے آئین کے تحت بنیادی حقوق خصوصاً آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کیلئے اقدامات کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

عمران خان نے معاملے کے حوالے سے 8 اہم ترین سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ "گزشتہ کئی مہینوں سے مشکوک اور غیرمصدقہ آڈیوز/ویڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کا سلسلہ جاری ہے،  منظرِعام پر آنے والی مبینہ آڈیوز/ویڈیوز مختلف موجود و سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کے مابین گفتگوؤں پر مبنی ہیں۔”

خط کے متن کے مطابق "منظرِعام پر آنے والی آڈیوز/ویڈیوز غیرمصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان آڈیو/ویڈیوز کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کرکے ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔”

خط کے متن کے مطابق "چند ماہ پہلے بعض ایسی آڈیوز منظرِعام پر آئیں جن کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے دفتر/ہاؤس سے متعلق تھیں، ان آڈیوز سے تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر/ہاؤس کی خفیہ نگرانی  یا یہاں ہونے والی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگز ایک معمول تھا۔”

سربراہ تحریک انصاف نے خط میں لکھا ہے کہ "ایوانِ وزیراعظم بلاشبہ ریاست کا حساس ترین ایوان ہے جہاں قومی حساسیت کے حامل معاملات پر تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے، ایوانِ وزیراعظم کی سیکیورٹی پر نقب سے عوام کی سلامتی، تحفظ اور مفادات و حیات پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ "قومی شواہد موجود ہیں کہ ان غیرمصدقہ و جعلی آڈیوز/ویڈیوز کے ذریعے تنقیدی آوازوں کو دبایا جانا مقصود ہے، مجھ سمیت کئی سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد ان جعلی، غیرمصدقہ اور کانٹ چھانٹ سے تیار کردہ لیکس کا نشانہ بن چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ "دیگر بہت سے افراد کے ساتھ سینیٹر اعظم سواتی کے پرائیویسی کے بنیادی آئینی حق کو بری طرح پامال کیا گیا۔

خط میں عمران خان کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ "جناب عالی! پاکستان میں آئین کی تخلیق کے دوران متعدد حقوق کو دستور کا حصہ بنایا گیا۔”

1: دستور کا آرٹیکل 4 ہر شخص کو قانون کا تحفظ فراہم کرتا اور قانون ہی کے تحت سلوک کا حق دیتا ہے۔

2: یہی دستور ہر فرد کی عزت و ناموس اور چادر و چار دیواری کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

3: مگر دستور کے تحت افراد کو میسر یہ حقوق ناقابلِ جواز ڈھٹائی اور صریحاً دیدہ دلیری سے پامال کئے جارہے ہیں۔

4: پرائیویسی سمیت دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے میں نے اکتوبر 2022 میں ان آڈیو لیکس پر آرٹیکل 184(3) کے تحت معزز عدالت کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی۔

عمران خان نے خط میں لکھا ہے کہ "بدقسمتی سے اب تک میری یہ درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ کی جا سکی، میری درخواست کے بعد معاملات بہتری کی بجائے مزید ابتری کے شکار ہوچکے ہیں، آئین کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا محاسبہ نہ ہونے پر ان میں ملوث کردار مزید بےخوف ہوکر اس جعلی مواد کو فروغ دے رہے ہیں۔

خط کے متن کے مطابق "بدقسمتی سے حال ہی میں سابق وزیراعلیٰ اور سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے مابین مبینہ گفتگو خفیہ طور پر سماجی میڈیا پر جاری کی گئی، واضح ہوچکا کہ اب عوام معمول کے تحت اس خفیہ نگرانی و ریکارڈنگز کا نشانہ بن رہے ہیں، ان ریکارڈنگز کو اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ، توڑ مروڑ اور ردوبدل کرکے منظرِعام پر لانے کا سلسلہ بلاروک جاری ہے۔

عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے اٹھائے گئے 8 سوالات

1: سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا قانون عوام الناس کی اس وسیع پیمانے پر نگرانی و خفیہ ریکارڈنگز کی اجازت دیتا ہے۔

2: یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قانون اس نگرانی و ریکارڈنگز کا حق کسے دیتا ہے۔

3: یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کی حدود و قیود کیا ہیں۔

4: یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

5: اس سوال کا جواب بھی لازم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز سے حاصل کئے گئے مواد کی حفاظت کا کیا انتظام ہے۔

6: کیا محض کسی کی مرضی سے شہریوں کی باہم بات چیت خفیہ طور پر ریکارڈ اور توڑ مروڑ کر منظرِعام پر لانے کو گوارا کیا جاسکتا ہے۔

7: گزشتہ چند ماہ سے جاری قانون سے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اس سلسلے کو روکنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے، عمران خان

8: آیا ہمارے وہ حساس ترین ایوان جہاں اہم ترین معاملات پر فیصلہ سازی کی جاتی ہے، محفوظ ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ "اگر آئین کے تحت فراہم کردہ حقوق کچھ اہمیت رکھتے ہیں تو پاکستان کے عوام ان سوالات کے جوابات کے حقدار ہیں، میری استدعا ہے کہ ان غیرمصدقہ و غیر مجاز آڈیو لیکس کے معاملے پر میری آئینی درخواست فوراً سماعت کیلئے مقرر کی جائے۔”

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ "ملک کے اعلیٰ ترین ایوانِ عدل سے دستور کے تحت میسر حقوق کے تحفظ کی ضمانت کے حصول کی خواہش یقیناً تنہا میری ہی نہیں، قوم امید کرتی ہے جب دستور انہیں کچھ حقوق فراہم کرتا ہے تو بہرحال ان حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔”

متعلقہ تحاریر