پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات: نیا بینچ تشکیل ، فیصلہ کل تک متوقع
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ عدالت کل بھی کیس کی سماعت کرے گی اور کل ہی روز اپنا فیصلہ سنائے گی۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کی تاخیر پر ازخود نوٹس کیس پر بننے والا بینچ ٹوٹ گیا ، سپریم کورٹ کے چار ججز نے نئے بینچ کی تشکیل کی تجویز دے دی ہے ، جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ باقی ماندہ 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو لارجز بینچ کے چار ججز نے نیا بینچ تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔ جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے نئے بینچ کی تجویز دی۔
یہ بھی پڑھیے
پی ایس ایل میچ کے دوران ارشد شریف کا ماسک لگانے پر پولیس کا صحافی عمران ریاض پر تشدد
کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ لمز کے انٹری ٹیسٹ میں شدید بدنظمی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت کے آغاز پر 23 فروری کو ہونے والے سماعت کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔
سماعت کے موقع پر چاروں معزز جج صاحبان نے اپنا اختلافی نوٹ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال کو پہنچایا۔
سپریم کورٹ نے اپنی 23 فروری کی سماعت کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چار ججز صاحبان نے بینچ پر اعتراضات کیے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق چاروں جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھے ، چاروں جج صاحبان نے چیف جسٹس سے استدعا کی ہے کہ ان حالات میں جو بینچ کے اوپر اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں ، ہماری درخواست ہے کہ چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دے دیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت ضروری ہے کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے 23 فروری کی سماعت کا فیصلہ 14 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا ہے۔
لارجر بینچ سے چار ججز کی علیحدگی کے بعد 5 ججز نے چیف جسٹس کی سربراہی میں مزید کیس کی سماعت کی۔ اور مزید سماعت کل صبح تک کےلیے ملتوی کردی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ چار معزز جج صاحبان نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کی تشریح کے لیے کیس کی سماعت جاری رہے گی۔ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا اور کل ہی فیصلہ بھی کرے گا۔ سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے شروع کی جائے گی اور ختم بھی کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جب تک فیصلہ ویب سائٹ پر نہ آجائے ، جاری نہیں کیا جاسکتا ، جسٹس جمال مندول خیل کا نوٹ حکم نامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا تھا ، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہ اپ دلائل دیں کہ عدالت یہ کیس سن بھی سکتی ہےیا نہیں؟ کیونکہ کل ہر صورت میں ہم نے یہ کیس ختم کرنا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی بھی بینچ کا حصہ نہیں رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھ سمیت جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل کیس کی سماعت کریں گے۔
عدالتی پروسیڈنگ
بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر اظہر صدیق کے دلائل
عدالت کے حکم پر کےپی اور پنجاب کے اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے ، لیکن انہوں نے نہیں کی، گورنر کے انکار پر 48 گھنٹے میں اسمبلی ازخود تحلیل ہوگئی۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کے سوال پر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنرکے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر ازخود اسمبلی تحلیل ہو جانےمیں فرق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمہ دار ہے اسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کو جسٹیفائی کرے، کیا کوئی انتخابات میں تاخیر کر سکتا ہے؟ وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کرسکتا۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے، گورنر یا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ مؤخر ہوا ہے؟ وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس لیے ہائی کورٹ سے مؤخر ہوا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں جاری انٹرا کورٹ اپیل میں کوئی حکم امتناع نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہوچکی ہے۔
وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا، لاہور میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت 16 فروری کو ہوئی، اب 21 فروری کو ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ نے اتنے لمبے التوا کی وجوہات دیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التوا نہیں دیا جاسکتا۔
وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التواء دیا گیا۔
وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا، 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت دائر کی گئی، صدر مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟ اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ میری معلومات کے مطابق پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے، ہائی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینےکا کہا تھا، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا موقف ہےکہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتا، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں، پہلے آپ ، نہیں پہلے آپ کرکے تاخیر کی جارہی ہے، صدر نے تاریخ مقرر کرنے کے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا صدر سے کسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدر کو مداخلت کرنا پڑی، کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی تھا ، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا تو اسے حکم جاری کرے گی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمہوریت میں خلا چھوڑ دیا جائے، باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتا دیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر کے پی نے اپنے خط میں سکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے، انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی۔
اس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نکتہ طے کرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس اب صرف اسی سوال پر چل رہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟
وکیل علی ظفر نےکہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے، کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیرکا شکار ہوجائے، دوسرا فریق بتادے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اگر انتحابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ آئےتو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتےہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ امن وامان کا معاملہ گورنر کا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ سال 2013 اور 2018 میں اسمبلیوں نے مدت مکمل کی تھی۔
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیےکہ کے پی میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پرعملدرآمد ہوا لیکن پنجاب میں نہیں۔
وکیل علی ظفرکا کہنا تھا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے لیے 90 دن کی حد مقررکی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے، صرف اعلان نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ذمہ انتخابات کے لیے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں، آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمہ داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16 فروری کو ازخود نوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔