”اقتصادی، توانائی اور ماحولیات بحران: جدت اور ٹیکنالوجی پر مبنی سوچ“ پر سیمینار کا انعقاد

ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کے زیرِ اہتمام سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد پائیدار ترقی کے حصول کو ممکن بنانا ہے۔

اسلام آباد: صاف توانائی پر منتقلی کے لئے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے، موجودہ معاشی، توانائی اور ماحولیات کی ابتر صورت حال کی بہتری بیرونی سرمایہ کاری سے ممکن ہے ،مسائل کے پائیدار حل کے لئے ضروری ہے کہ حقیقی اعدادوشمار کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں۔

سماجی، اقتصادی ترقی ان شعبہ جات میں ترقی بڑی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سمیت رویوں میں مثبت تبدیلی ضروری ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کا سامنا کرنے کے لئے فوری و بہتر فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔

اس امر کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کے زیرِ اہتمام ”اقتصادی، توانائی اور ماحولیات(3Es ) بحران: جدت اور ٹیکنالوجی پر مبنی سوچ“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے دوران کیا۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز کے بعد بلاول بھٹو نے بھی توپوں کا رخ عدلیہ کی جانب موڑ دیا

ملک میں امن و امان کی صورتحال 2008 اور2013 الیکشن سے بہتر قرار

اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے سینیئر ایڈوائزر ریسرچ فیلو ڈاکٹر حسن داؤد بٹ نے کہا کہ اقتصادیات، ماحولیات اور توانائی میں توانا ربط سماجی و اقتصادی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ایسے بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرہ درست سمت اور طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی اپنائے۔

سیمینار سے کراچی الیکٹرک کے شعبہ مارکٹنگ ، کمیونیکیشن کی سربراہ سعدیہ دادا نے کہا کہ توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے ذریعے ایسے بحرانوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ کراچی الیکٹرک کے حوالے سے بتایا کہ نجکاری کے مثبت اثرات کے نتیجے میں صارفین کی تعداد میں 1.8ملین ، سپلائی 2200 میگاواٹ سے بڑھ کر3380 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ لائن لاسز 34.2 فیصد سے کم ہو کر 15.3 فیصد تک آگئے ہیں جو نیپرا کی طرف سے دیئے گئے اہداف سے زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بہتر کارکردگی کا حصول نجکاری کے بعد 474 ارب روپے کی نجکاری سے ہوسکا جو کہ کمپنی کے 6 گنا منافع سے زیادہ ہے۔

سیمینار کے شرکاء کو مزید بتایا گیا کہ شہر کی بڑھتی ہوئی مانگ کے حوالے سے 2030ء سرمایہ کاری پلان کے مطابق 484 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے جس میں 30 فیصد توانائی قابل تجدید شامل کرنا ، 30 فیصد صارفین میں اضافہ جبکہ بجلی کی فراہمی کو بہتر کرنا بھی شامل ہے۔

سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے قابل تجدید توانائی کے ماہرمحمد باسط غوری نے کہا کہ پاکستان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے نجی شعبہ کی خصوصی توجہ درکار ہے۔ توانائی کی مانگ میں اضافہ پر پیدا ہونے والے مسائل کے فوری حل کی صلاحیت درکار ہے جس کے لئے توانائی شعبہ اور تحقیق میں گہرا ربط ناگزیرہے۔

کراچی الیکٹرک شعبہ تقسیم کاری کے سر براہ عامر ضیا ءنے بتایا کہ توانائی کی تقسیم کاری میں جدت لاتے ہوئے سمارٹ میٹرز اور جی آئی ایس سسٹم پر غور کیا جا رہا ہے۔

اس موقع پر ماہر برقیات اسد محمود نے کہا کہ سرکار اور نجی شعبہ کی شراکت سے توانائی کے ترسیلی نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ بجلی کے ترسیلی نظام کی اصلاح میں عالمی ماحولیاتی فنڈز کے ذریعے ممکن بنائی جائے۔

اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے محقق ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ امپورٹڈ ایندھن پر انحصار کم کرکے صاف توانائی کی طرف جانا وقت کی ضرورت ہے۔

سیمینارسے ایس ڈی پی آئی کے عبیدالرحمان ضیاء نے کہا کہ گردشی قرضوں کے حوالے سے دانشمندانہ اور پائیدار فیصلوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح اور شرح سود میں اضافہ کے باعث نئے منصوبوں کے لئے حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔

متعلقہ تحاریر