پاکستان میں ایک سال میں انسانی اسمگلنگ کے 20 ہزار واقعات، ایف آئی اے انسداد میں ناکام

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث مافیا لڑکیوں کو زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کیلئے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کیلئے بیرون ملک  منتقل کرتے ہیں جبکہ نوجوان سہانے مستقبل کی آس میں ان کا نشانہ بنتے ہیں، اسمگلرز کی اکژیت کا تعلق اسلام  آباد اور صوبہ پنجاب سے ہے  

اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بعد پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں روز بروز ہوتے اضافے کو دیکھتے ہوئے اس اہم مسئلے کے انسداد کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے ۔

ایف آئی اے کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران انسانی اسمگلنگ کے 20 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے  ہیں، متاثرین میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دعا زہرہ کیس انسانی اسمگلنگ کا معاملہ دکھائی دے رہا ہے، سماجی رہنما فیصل ایدھی

امریکی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے کم از کم معیارات پر پوری طرح پورا نہیں اترتی لیکن ایسا کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہے۔

ایف آئی اےکے مطابق پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کیلئے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لئے اسمگل کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں انسانی اسمگلرز کا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 2 سے 50 سال کے درمیان  ریکارڈ کی گئی ہیں تاہم ان کے بارے میں حقائق جمع کرناانتہائی کٹھن اور مشکل ترین  کام ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران پنچاب سے شادی کے بہانے نوجوان لڑکیوں کو چائنا اسمگل کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں  جسے  ناکام بناکر چینی  شہریوں کو بھی گرفتار کیا گیا ۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کئی دہائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے نوجوان شہری  سہانے مستقبل کے لیے  ملک سے راہ فرار  اختیار کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق انسانی اسمگلنگ ایک خطرناک معاشرتی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ پاکستان جیسے غربت زدہ  اورغیر محفوظ سرحدی ممالک میں انسانی اسمگلرز کا کام کافی آسان ہوجاتا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے جرم میں مطلوب افراد کی ‘ریڈ بک’ میں شامل 43 اسمگلرز کا تعلق پنجاب، 31 کا اسلام آباد جبکہ سندھ سے 12 ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا دعا، نمرا اور دینار انسانی اسمگلنگ ریکٹ کے ہتھے چڑھ گئیں؟

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسداد اسمگلنگ کے موجودہ  ملکی قانون پر عمل درآمدنہ ہونے اور کم ہونے کی وجہ سے  ان جرائم کا انسداد کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔

امریکی ادارے کی پاکستان میں انسانی اسمگلنگ  سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر، تمام قسم کی اسمگلنگ کے پراسیکیوشن اور سزاؤں میں اضافہ کریں۔

صوبائی پولیس، لیبر انسپکٹرز، اور ایس او پیز پر سماجی خدمات کی تربیت کے ذریعے بانڈڈ لیبر کے متاثرین کی شناخت اور خدمات کو ریفر کرنے والوں کی تعداد میں بھرپور اضافہ کریں۔

جرمانے کی دفعات کو ہٹانے کے لیے پی ٹی پی اے میں ترمیم کریں جو جنسی اسمگلنگ کے جرائم کے لیے قید کے بدلے جرمانے کی اجازت دیتی ہیں جن میں مرد متاثرین شامل ہیں۔

متعلقہ تحاریر