سپریم کورٹ کا متوقع حکم: وفاقی حکومت نے انتخابات ٹالنے کی نئی حکمت عملی ترتیب دے دی
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کیس میں گذشتہ عدالت عظمیٰ نے چار روز کی سیرحاصل بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا ، جو آج گیارہ بجے سنایا جائے گا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخوں میں تاخیر پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا ازخود نوٹس کا معاملہ ، سپریم کورٹ آج اپنا محفوظ شدہ فیصلہ سنائے گی ، جس کا قوی امکان یہ ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو حکم دے گی کہ انتخابات وقت پر کرائے جائیں ، جبکہ دوسری حکومت نے یہ حکمت عملی ترتیب دی ہے کہ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن جوکہ ایک آئینی ادارہ ہےکو حکم دے گی ، تو اس کی سارے ارکان کو مستعفی ہونے کا کہیں گی۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کیس میں گذشتہ عدالت عظمیٰ نے چار روز کی سیرحاصل بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا ، جو آج گیارہ بجے سنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواستیں دائر
احساس 2047 ڈاکومنٹری کا اجراء؛ فلاحی ریاست کے تصور کو حقیقت میں ڈھالنے کی کوشش
گذشتہ چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم پر وکلاء نے اپنی اپنی پارٹی کے قائدین سے تاریخ پر مشاورت کی ، تاہم کوئی متفقہ موقف سامنے نہیں آسکا۔
اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دے دی آپ نے ہر صورت میں 90 روز انتخابات کرانے ہیں ، آپ تاریخ ملنے کا انتظار نہ کریں اور انتخابات کی تیاری کریں اور گورنرز کا کہہ دے کہ آپ تاریخ دیں تو اس کی مخالفت میں حکومت نے حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے۔
چہ میگوئیاں چل رہی ہیں کہ ایسی صورتحال میں چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنرز احتجاجاً اپنے عہدوں سے استعفے دے دیں گے ، کہ سپریم کورٹ نے ان کی ڈومین گھسنے کی کوشش کی ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کو بنیاد بنا کر چیف الیکشن کمشنرز اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان مستعفے ہوسکتے ہیں۔
حکومتی سرکل میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے خلاف آجاتا ہے کہ انتخابات وقت کرائے جائیں ، جو حکومت کرانا نہیں چاہتی ، ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن فارغ ہو جائے گا ، تو ایک نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا ، کیونکہ جب الیکشن کمیشن نہیں ہوگا تو انتخابات کون کرائے گا۔
اس کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے لیے حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھیں گے اور نئے ارکان کی تعینات کریں گی اس سارے پروسیس میں کتنا وقت لگ سکتا ہے کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہیٰ کا کہنا تھا کہ نوے دن سے زائد تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سمجھیں کہ عدالت کسی غیرآئینی کام کی توسیع کرے گی۔