سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے پر اختلاف نوٹ لکھا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ازخود نوٹس کیس ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے دونوں صوبوں میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ فیصلہ دو تین کے فرق سے سامنے آیا ہے ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے گذشتہ روز پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ازخود نوٹس کیس کا تمام وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواستیں دائر
احساس 2047 ڈاکومنٹری کا اجراء؛ فلاحی ریاست کے تصور کو حقیقت میں ڈھالنے کی کوشش
سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بینچ نے فیصلہ سنایا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی چار روز تک سماعت کی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
دونوں معزز جج صاحبان نے انتخابات کی ڈیڈلائن دینے پر اختلاف کیا ہے۔ دونوں ججز نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے کا پابند ہوگا۔
چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ خیبرپختونخوا میں چونکہ گورنر کے دستخطوں سے اسمبلی تحلیل ہوئی تھی اس لیے کےپی میں گورنر انتخابات کی تاریخ دیں گے جبکہ پنجاب میں گورنر نے اسمبلی کی تحلیل پر دستخط نہیں کیے تھے اس لیے پنجاب میں انتخابات کے لیے تاریخ صدر مملکت دیں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین 60 اور 90 روز میں انتخابات کرانے کی بات کرتا ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہےکہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو جبکہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو انتخابات 90 روز میں ہونا لازم ہیں ، یہ گورنر کی آئینی ذمہ داری ہےکہ انتخابات کی تاریخ دے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں طے کردیا ہے کہ اگر گورنر انتخابات کی تاریخ نہیں دیں گے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ گورنرز آرٹیکل 112 کے تحت وزیراعلیٰ کی ہدایت پر اسمبلی کو تحلیل کرتے ہیں۔ گورنر کو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیئے گئے ہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخطوں کے بغیر 48 گھنٹوں میں تحلیل ہو گئی ، گورنر کےپی نے انتخابات کی تاریخ نہ دے کر آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن فوری پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 کو مدنظر رکھ کے انتخابات کی تاریخ دی جائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ وفاقی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد کرے۔ فیصلے میں اداروں کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر مملکت کی جانب سے خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے فیصلے کو کالعدم قرار دےدیا ہے ، فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ کےپی میں انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔
آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہےکہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن صدر اورگورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا ہےکہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے۔
چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے۔ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگرکیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ حکمران اتحاد نے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔ 9 رکنی بینچ ٹوٹنےکے بعد چیف جسٹس پاکستان نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسے 5 رکنی کردیا۔چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 2 سماعتیں کیں۔
گذشتہ روز کی سماعت کا احوال
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 2 سماعتیں کیں۔ گزشتہ روز 7 گھنٹےکی طویل سماعت میں فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوئے، اسپیکرز کے وکیل علی ظفر اور سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے، عوامی مسلم لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے، اٹارنی جنرل شہزاد عطاالہٰی اور الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار نے بھی دلائل دیے۔ گورنر کے پی کے وکیل خالد اسحاق، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ، گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے بھی دلائل دیے۔گورنر کے پی کے وکیل خالد اسحاق، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ، گورنرپنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے بھی دلائل دیے۔بینچ میں شامل سپریم کورٹ کے تمام ججز نے گزشتہ روز ریمارکس میں کہا کہ آئینی طورپرانتخابات 90 دن میں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، انتخابات بروقت نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئےگا، عدالت کے سوا کسی آئینی ادارے کو انتخابات کی مدت بڑھانےکا اختیار نہیں، عدلیہ کو بھی مدت بڑھانےکی ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی۔
چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آپس میں مشورہ کرنےکی ہدایت دی، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ان کے پارٹی لیڈرز کہتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں، ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نےکہا کہ دو صوبوں میں ابھی انتخابات سے جنرل الیکشن متاثر ہوگا۔