وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ قطر پر فواد چوہدری کی سخت تنقید

رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے غیرملکی دوروں پر سوال اٹھایا ہے کہ ان دوروں سے پاکستان کو حاصل وصول ہوا ہے۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف امیر قطر کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورے پر دوحہ (قطر) پہنچ گئے، شہباز شریف کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سیز) سے متعلق اقوام متحدہ کی 5ویں کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ وزیراعظم کے دورہ قطر پر سخت تنقید کرتے ہوئے رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے سوال اٹھایا ہے کہ "کیا وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے متعدد غیر ملکی دوروں سے پاکستان کو کوئی فائدہ ہواہے۔؟”

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 5 سے 9 مارچ تک منعقد ہونے والی کانفرنس میں کم ترقی یافتہ ممالک میں پائیدار ترقی کو تیز کرنے کے اقدامات پر غور کیا جائے گا اور انہیں خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیے

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی ممکنہ گرفتاری ، اسلام آباد پولیس زمان پارک پہنچ گئی

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے جی ایس ٹی کی شرح 18 سے 25 کرنے کی تجویز آگئی

دوحہ میں وزیراعظم کانفرنس کے موقع پر شریک رہنماؤں اور وفود کے سربراہان سے دوطرفہ ملاقاتیں اور بات چیت کریں گے۔

کانفرنس کا مقصد کم ترقی یافتہ ممالک کے حق میں اضافی بین الاقوامی امدادی اقدامات کو متحرک کرنا ہے ، تاکہ ایل ڈی سیز اور ترقی یافتہ شراکت داروں کے درمیان ایک نئی شراکت داری پر قائم کرنا ہے۔

کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف پاکستان میں سماجی ترقی اور معاشی خوشحالی کے لیے کی جانی کوششوں پر روشنی ڈالیں گے۔

وزیراعظم کے دورہ قطر پر سخت تنقید کرتے ہوئے رہنما تحریک انصاف فواد چوہدرہ نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا ہے کہ ” شہباز شریف ایک بار پھر غیر ملکی دورے پر روانہ ہو رہے ہیں، وزیر خارجہ پوری دنیا گھوم چکے ہیں سمجھ سے باہر ہے اتنے دوروں نے پاکستان کو کیا دیا؟”

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ "ہمارے قریب ترین دوست ممالک پاکستان کے مالیاتی بحران کے معاملے سے لاتعلق کھڑے ہیں کشمیر، افغانستان پر دس ماہ سے کبھی کہیں ذکر ہی نہیں ہوا۔ پاکستان کے اندر ظلم اور جبر کی حکومت ہے انسانی اور سیاسی حقوق سلب ہو چکے ہیں۔”

رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے مزید لکھا ہے کہ "بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعد اب پنجاب میں لوگ مِسنگ پرسنز بن رہے ہیں، بحیثیت جوہری ریاست ہماری ریاستی صلاحیتوں پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں ، یہ اسٹیبلشمنٹ کے غیر ضروری تجربے Regime Change کے ثمرات ہیں۔”

متعلقہ تحاریر