6 ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود پاکستانی سیلاب متاثرین کی مشکلات کم نہ ہوسکیں

80 لاکھ افراد تاحال کھڑے سیلابی پانی کے اطراف خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور، ایک کروڑ 60 لاکھ بچوں سمیت 3کروڑ 30 لاکھ افراد تاحال امداد کے منتظر، بمشکل ایک وقت کھانا میسر آتا ہے، غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا، سیو دی چلڈرن کی عالمی اداروں سے مدد کی اپیل

پاکستان میں بدترین سیلاب کو 6 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے ،ہزاروں اموات اور ایک تہائی رقبہ  زیرآب آنے کےبعد 80لاکھ متاثرین سیلاب اپنے گھر بار اور کھیتی باڑی چھوڑنے پر مجبور ہوئےاور تاحال کھڑے ہوئے پانی کے اطراف  خیموں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

برطانوی غیرسرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق متاثرین   تاحال دن میں ایک وقت کے کھانے پر زندہ رہنے پر مجبور ہیں  ۔

یہ بھی پڑھیے

گلوکارہ حدیقہ کیانی کو سیلاب متاثرین کیلئے مکانات کی تعمیر پر خراج تحسین

سیلاب متاثرین نے مالی مشکلات سے نمٹنے کیلئے منفی حکمت عملی اختیار کرلی

بڑھتی ہوئی مہنگائی خوراک کو مزید ناقابل رسائی بنارہی ہے  کیونکہ متاثرہ خاندانوں کو اپنے روزمرہ کے کھانے میں کمی کرنا پڑ رہی ہے اور ڈاکٹر غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے کیسز کو  رپورٹ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ  کے مطابق  دس لاکھ سے زائد افراد بھوک کی ہنگامی سطح پر جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثر ہونے والی آبادیوں نے حال ہی میں سیو دی چلڈرن کے عملے کو بتایا کہ وہ کس طرح زرعی زمین کی وجہ سے بمشکل زندہ رہ رہے ہیں – جو علاقے کے زیادہ تر خاندانوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے اور تباہ ہو رہی ہے۔

30 سالہ ہاجرہ، اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ ایک خیمے میں رہتی  ہے  کیونکہ اس کا گھر  ٹھہرے ہوئے سیلابی پانی سے تباہ ہوچکا ہے۔ اس کا شوہر یومیہ اجرت پر کام کرتا ہے اور بمشکل اتنا کماتا ہے کہ وہ خاندان کے لیے روزانہ ایک وقت کا کھانا خرید سکے  جوکہ عام طور پر سرسوں کے ساگ اور روٹی پر مشتمل ہوتا ہے  ۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے ہاجرہ کے 10 ماہ کے بچے جیان کو شدید غذائی قلت  کا سامنا ہے کیونکہ وہ کمزوراور بیمار ہونے کی وجہ سے بچے کو  مزید دودھ نہیں پلا سکتی ۔

جیان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر محمد حنیف نے بتایا کہ ان کے کلینک میں غذائی قلت کے ساتھ آنے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں کا تناسب 20 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہو گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے کھیتوں کی ساری پیداوار بھی سیلاب میں ڈوب گئی جس سے لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا۔

سیو دی چلڈرن کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ 30 لاکھ سیلاب متاثرین جن  میں ایک کروڑ 60 لاکھ بچے بھی شامل ہیں تاحال امداد کے منتظر ہیں۔اقوام متحدہ کے پاکستان فلڈ ریسپانس پلان نے 9ماہ کی مدت میں صرف 36فیصد رقم فراہم کی ہے۔سیو دی چلڈرن  نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ خوراک کے شدید بحران کو روکنے کے لیے فوری طور پر فنڈز میں اضافہ کریں کیونکہ ایسا نہ کیا گیا تو  بچے بھوک سے مر رہے ہوں گے اور غذائی قلت آسمان کو چھو رہی ہوگی۔

متعلقہ تحاریر