وزیراعظم کی کفایت شعاری مہم میں کابینہ ارکان اور اعلیٰ افسران رکاوٹ بن گئے

30 میں سے 16 وزرا نے لگژری گاڑیاں واپس نہیں کی،کئی سینئر بیوروکریٹس بھی 1800 سی سی سے زائد کی لگژری گاڑیاں استعمال کررہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ اور فوج میں بھی کفایت شعاری مہم پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔پٹرولیم ڈویژن نے تخت بابری میں 3 روزہ پرتعیش ورکشاپ کا اہتمام کرڈالا

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ ماہ اعلان کردہ کفایت شعاری کی سخت پالیسی کے باوجود ان کی کابینہ کےارکان اور ماتحت اعلیٰ افسران نے معاشی بچت کے اقدامات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت کفایت شعاری کے اقدامات پر عملدرآمد کی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ کابینہ کے ارکان، پارلیمانی سیکرٹریز اور قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو دی گئی لگژری گاڑیوں میں سے نصف سے زائد کابینہ ڈویژن کو واپس نہیں کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے غیرملکی دوروں نے حکومتی کفایت شعاری مہم کا پول کھول دیا

وزیراعظم اور کابینہ کے تمام ارکان کا تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ

رونازمہ ڈان میں شائع ہونے والی خلیق کیانی کی خبر کے مطابق فروری میں وفاقی حکومت کی طرف سے منظور کی گئی کفایت شعاری کی پالیسی کے باوجود بہت سے سینئر بیوروکریٹس 1800سی سی سے اوپر کی سرکاری اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکلز (ایس یو ویز) اور سیڈان کاریں بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کا اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمانی فورمز پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مسلح افواج میں  بھی کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل درآمد پرکوئی  بات نہیں کی گئی۔

پٹرولیم ڈویژن میں تخت بابری میں ورکشاپ 

دریں اثناپیٹرولیم ڈویژن نے "پیٹرولیم سیکٹر کے لیے اسٹریٹجک روڈ میپ” کے موضوع پر ایک ورکشاپ کے لیے تاریخی تخت بابری (کلر کہار) میں تین روزہ پروگرام  منعقد کرکے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔

اس  تقریب میں  پبلک سیکٹر کے تیل و گیس کے اداروں اور کمپنیوں سے 40 سے 80 کے درمیان افراد کو کراچی اور کوئٹہ سے بذریعہ پرواز لایا جائے گاجبکہ  اسلام آباد سے پورا پیٹرولیم ڈویژن اور اس سے منسلک محکمے شرکت کریں گے۔تمام ایگزیکٹوز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے متعلقہ اداروں کے کھاتوں سے ہوائی سفر، لاجسٹک سپورٹ اور رہائش کے لیے خرچ کریں۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان ریٹائرڈ کیپٹن شہباز نے تصدیق کی کہ اسٹریٹجک روڈ میپ ڈیولپمنٹ ورکشاپ میں پیٹرولیم ڈویژن کی تنظیموں کومدعو کیا گیا ہے۔انہوں نے کل اخراجات کو بانٹنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کم سے کم اخراجات ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ کمپنیوں جیسےاو جی ڈی سی ایل  اور دیگر کی عمارتوں میں وسیع کانفرنس ہال  موجود ہیں۔

30 میں سے 16 وزرا نے پرتعیش گاڑیاں واپس نہیں کیں

باخبر ذرائع نے بتایا کہ اسحاق ڈار  کی زیر صدارت اجلاس میں ایک تعمیل رپورٹ میں بتایا گیا کہ 30 لگژری گاڑیوں میں سے 14 کو کابینہ کے ارکان یا دیگر عہدیداروں نے واپس کر دیا ہے جبکہ 16 ابھی  بھی استعمال میں ہیں۔

تاہم محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کے ارکان کی اکثریت نے لگژری گاڑیاں واپس  کر دی ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ”اجلاس میں بقیہ لگژری گاڑیوں کی عدم واپسی پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کابینہ ڈویژن کو فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کرنے اور لگژری گاڑیوں کو تین دن کے اندر واپس کرنے کی ہدایت کی گئی“۔اجلاس میں سیکیورٹی گاڑیوں کے استعمال سے دستبرداری پر بھی غور کیا گیا اور اس فیصلے کو اسکی روح کے مطابق نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

بیان میں کہا گیاہے کہ اجلاس میں کچھ افسران کی جانب سے 1800سی سی  سے اوپر کی ایس یو وی /سیڈان کاروں کے استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور تمام حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ان تمام گاڑیوں کا  استعمال کو فوری طور پر روک دیں۔

اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ عدلیہ میں کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل درآمد کی تجویز دینے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے اور وقت اور اخراجات کو بچانے کے لیے تمام اجلاسوں کے لیے ٹیلی کانفرنسز کے استعمال کے حوالے سے سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر سے رجوع کرے ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے بتایا کہ اس نے پہلے ہی صوبائی حکومتوں سے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اسی طرح کے کفایت شعاری کے اقدامات کے نفاذ کے لیے رابطہ کیا ہے۔

اجلاس میں اوقات کار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ دفتری امور کے نئے اوقات  صبح ساڑھے 7 بجے سے دوپہرڈھائی  بجے تک اور جمعے ساڑھے 12  بجے تک ہوں گے ۔ان اوقات کار پر عملدرآمد  یکم رمضان سے شروع ہوگا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق گرمیوں کے موسم میں اس پر عمل کیا جائے گا۔ دفتری اوقات کار میں تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

متعلقہ تحاریر