جلد اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں گے، وزیراعظم شہباز شریف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا ہے قومی اور عوامی مفاد کو داؤ پر نہیں لگنے دیں گے، ہم ملکی حالات خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، آئی ایم ایف کا پروگرام جلد ہونے کی توقع ہے تاہم یہ مستقل حل نہیں۔

اسلام آباد: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ملک کو درپیش چیلنجوں سے نکالنے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا، یہ اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام ضرور حاصل کرے گا، معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈا، کفایت شعاری سمیت دیگر اہم ترین اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے مل بیٹھ کر فیصلے کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ہو گا، قومی اور عوامی مفاد کو داؤ پر نہیں لگنے دیں گے، ہم ملکی حالات خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، آئی ایم ایف کا پروگرام جلد ہونے کی توقع ہے تاہم یہ مستقل حل نہیں۔

جمعرات کو سینٹ آف پاکستان کی 50 سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کے دوسرے روز کمیٹی آف دی ہول سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینٹ آف پاکستان کے 50 سالہ گولڈن جوبلی کو شایان شان اور سادگی سے منانے کیلئے اس سیشن کے انعقاد پر چیئرمین سینٹ، ٹیم اور تمام سینیٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، یہ کام سرانجام دے کر ایک قومی خدمت کی ہے، یہ بات ایک بار پھر 1973ء کے آئین کی طرف جاتی ہے جب پہلی مرتبہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو برابر کے حقوق دینے کیلئے آئین پاکستان کے خالق ذوالفقار علی بھٹو اور تمام ملک کے زعماء اور لیڈرشپ نے یہ تاریخی کام سرانجام دیا اور آج 50 سال گزر گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

توشہ خانہ کیس کا تفصیلی فیصلہ؛ عمران خان کو 18 مارچ کو لازمی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا

عمران خان کو سیاست نہیں کرنی چاہیے وہ اس میدان کا کھلاڑی نہیں، مولانا فضل الرحمان

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سینٹ میں قانون سازی، زندگی کے تمام شعبوں پر بڑی عرق ریزی، محنت اور سنجیدگی کے ساتھ ان 50 سالوں میں اپنی ذمہ داری ادا کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف ممالک کے سفراء اور ہائی کمشنرز کو یہاں دعوت دی گئی، ہم ان سب کے مشکور ہیں، انہوں نے یہاں پر بڑی قابل تعریف تقاریر کیں، ہم پاکستان کی گذشتہ سال سیلاب کے دوران ان کی قابل قدر امداد پر ان کے مشکور ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت مشکل چیلنجوں سے گزر رہا ہے، اسے امپورٹڈ افراط زر کا سامنا ہے جو یوکرین کی جنگ کا شاخسانہ ہے جس کی وجہ سے اشیاء خوردونوش، تیل، گیس، کھاد کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے، پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک اس صورتحال کا بدترین شکار ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ہماری معیشت کو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا، بدقسمتی سے گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کئے، معاہدہ کیا لیکن ہم نے ان شرائط کا پاس نہیں کیا، اس نے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر عالمی اداروں میں پاکستان کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچایا۔

شہباز شریف نے کہا کہ ان حالات میں ہم نے ایک آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس وقت ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا جن میں دو بڑی مشکلات درپیش تھیں جن میں ایک گذشتہ حکومت کی جانب سے فنڈز کا بے دریغ استعمال تھا، انہوں نے خزانہ میں کوئی فنڈز نہیں چھوڑے، نوٹ چھاپتے گئے اور بجٹ کے بغیر بے شمار سبسڈیز دیتے رہے جبکہ دوسری مشکل بڑے پیمانے پر ذمہ داریوں کے حوالے سے تھی، اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم نے پاکستان کی ریاست کا تحفظ کرنا ہے،اس حوالہ سے ہم نے کفایت شعاری سمیت کئی ٹھوس اقدامات اٹھائے، گو کہ ان اقدامات سے پاکستان کے عام آدمی کیلئے مشکل صورتحال بنی لیکن ہم نے ایسے فیصلوں کو اپنانے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا جس پر ہماری اتحادی حکومت اور اس میں شریک جماعتوں کے سربراہان نے واضح طور پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے سیاست کو قربان کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ گو کہ ہم اس وقت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنے مشن سے مخلص ہوں تو ان مشکل حالات سے بھی نکلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور میری دیگر ٹیم انتھک کام کر رہے ہیں، شیری رحمان نے گذشتہ سال سیلاب کے دوران دن رات کام کیا، انہوں نے کلائمیٹ ریزیلیئنٹ کے حوالہ سے پاکستان کا ایک بیانیہ دیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم کوئی فرشتے نہیں ہیں، ہم سے بھی خطائیں ہوتی ہیں لیکن ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جو شخص اپنی غلطی کو تسلیم کر لے وہ بڑا انسان ہوتا ہے، ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد کیلئے سیاسی قیادت مل بیٹھتی تھی، ان میں شاید انفرادی طور پر بعض ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار بھی نہیں تھے لیکن پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے جب سیاسی قیادت اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے زعماء مل بیٹھے اور بڑے سے بڑے بحرانوں پر گفت و شنید کی اور ان کے حل نکالے، 1965ء کی جنگ میں پوری قوم ایک لڑی میں پروئی ہوئی تھی اور وطن کے دفاع کیلئے سب ایک تھے، اس وقت وطن کے دفاع کیلئے مسلح افواج کے جوانوں کی جس طرح پذیرائی ہو رہی تھی وہ قابل تعریف تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ 1971ء کی جنگ کے بعد جب وزیراعظم شملہ روانہ ہوئے تو پورے ملک کے زعماء اور قیادت انہیں الوداع کہنے لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھی کہ وہ جا کر پاکستان کا مقدمہ لڑیں، 2014ء میں جب دہشت گردی سے پوری قوم پریشان تھی اور دہشت گردی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اس دہشت گردی کے خلاف اس قوم نے بے پناہ قربانیاں دیں، اس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایپکس کمیٹی کا انعقاد کیا اور وہاں پر ایک چھت تلے سب اکٹھے ہوئے اور 2016ء میں سانحہ پشاور کا واقعہ ہوا جس نے دنیا بھر کے درد دل رکھنے والے لوگوں کو غمناک کر دیا، اس کے بعد سیاسی اور دینی جماعتوں کے سربراہان ایک چھت تلے بیٹھے،ان تمام واقعات کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ زندہ قومیں کس طرح چیلنجوں کا سامنا کرتی ہیں اور اجتماعی ذہانت اور گفتگو کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر