ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان کی ضمانت منسوخی کیلئے ایف آئی اے کی درخواست مسترد
جسٹس محسن اختر کیانی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان اور طارق شفیع کی ضمانت کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست مسترد کرنے کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں عمران خان اور طارق شفیع کی ضمانتیں منسوخ کرنے کی ایف آئی اے کی درخواست مسترد کردی ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے دوپہر کے وقت اپنا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان اور طارق شفیع کی ضمانیتں منسوخ کرنے کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست پر کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کا اسپیشل پراسیکیوٹر کو ایف آئی آر پڑھنے کی ہدایت کی۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بینکنگ کورٹ نے عمران خان کی ضمانت منظور کرائی۔
یہ بھی پڑھیے
جنوبی وزیرستان میں دہشتگردوں سے جھڑپ میں آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی شہید
ڈی آئی خان میں پولیس چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ، 3 اہلکار شہید ، 3 دہشتگرد ہلاک
دوران سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر نے عمران خان کی ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی۔ جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ کیا کیا عمران خان شروع سے ہی شامل تفتیش نہیں ہوئے؟
اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان نوٹسز کے باوجود شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ پیسے تو باہر سے کسی اور نے بھیجنے ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ٹی وی ٹالک شو پر عمران خان نے کہا کہ چیریٹی کے پیسے ہیں، اگر یہ چیریٹی کے پیسے تھے تو پارٹی کے اکاؤنٹ میں کیا کررہے تھے۔؟
عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ اگر چیریٹی کے پیسے پارٹی اکاؤنٹ میں آگئے تو کیا ہوا۔ اس پر اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ چیریٹی کرنے والا خود پیسے بھیجے گا کسی دوسرے کے اکاؤنٹ میں پیسے نہیں بھیج سکتا۔
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان پر اس کیس میں کیا الزام ہے؟ ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں وہ تو عارف نقوی پر ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان یا تحریک انصاف تو رقوم وصول کرنے والے ہیں۔
اس پر راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ چیئرٹی کی رقوم ہیں، یہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی گئیں، ہم اس انٹرویو سے متعلق اور کچھ دیگر سوالات پوچھنا چاہتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ رقوم اگر سیاسی جماعت کے استعمال کی گئی ہیں تو ذاتی مقاصد کیسے ہوگئے؟
راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ چیئرٹی کی رقم کو کسی دوسرے کے غیرملکی اکاؤنٹ کے ذریعے بھیجنا جرم ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ یہ تو قابل ضمانت جرم ہے جس کی دو سال سزا ہے ، یہ بتائیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کیا پابندیاں ہیں ؟ یہ تو باہر کی بینک نے دیکھنا تھا جہاں سے پیسے بھیجے گئے ، ایف آئی اے کا اختیار تو سٹیٹ بینک پر ڈیپنڈنٹ ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو یہ تو کیس ہی قابل سماعت نہیں ہے، اسٹیٹ بینک نے تو اپنا کام ہی نہیں کیا تو آپ کیسے آگئے پراسکیوٹ کرنے۔
اس پر بیرسٹر راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ دو ہزار تیرہ میں یہ رقوم آئیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے نے انکوائری کا آغاز کیا۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے وفاقی حکومت نہیں۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان اور طارق شفیع کی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ضمانت کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کو برقرار رکھا۔