جسٹس منصورعلی اور جسٹس جمال خان نے 27 فروری کے اپنے ہی فیصلے کیخلاف اختلافی نوٹ لکھ دیا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات لے لیے گئے تو پھر وہ چیف جسٹس کیوں کر رہیں گے؟
پنجاب کے انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھ کر کیس کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ، سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس کی سماعت کے لیے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی اختلافی نوٹ لکھ کر 23 فروری کو کیس سے الگ ہو گئے تھے جبکہ جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الحسن نے مبینہ الزامات کے بعد کیس سے خود کو الگ کرلیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
انسداد دہشتگردی کی عدالت کا رانا ثناء اللہ کو 12 بجے پیش ہونے کا حکم
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس کیس میں جو 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا ، انہوں نے ایک آرڈر پاس کیا تھا جس پر 9 کے 9 ججز کے دستخط تھے ، یعنی وہ چاروں ججز بھی شامل تھے جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
This order, initially, signed by all judges leaves no doubt that a new bench was to be constituted by the chief justice. Thus, 5 member bench was constituted and it is final bench. pic.twitter.com/su3ZGRt9xr
— Abuzar Salman Niazi (@SalmanKNiazi1) March 27, 2023
جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے تھے کہ "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کیس اس وقت یہاں پر نہیں ہونا چاہیے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کیس واپس جائے چیف جسٹس کو اور وہ ایک نئی بینچ تشکیل دے دیں۔”
Such a superior judgment by J SMASH in every dimension except where he ignores this order signed off by all 9 mmbrs of the bench as it then was
Specially masterful how he read 199 & 184 together to exclude the SC from interfering in original jurisdiction with an order of the HC pic.twitter.com/wKiD6TMYAQ
— Abdul Moiz Jaferii (@Jaferii) March 27, 2023
مذکورہ بالا ججز کے اختلاف کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے وہ 5 رکنی بینچ بنایا جس نے پنجاب میں انتخابات کی تاخیر کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ پھر اس بینچ نے وکلاء کے دلائل کے بعد تین دو سے فیصلہ دے دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے اختلافی نوٹ جاری کیا گیا، جبکہ آرڈر میں اختلافی نوٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اور آرڈر وہ ہوتا ہے جو چیف جسٹس لکھتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھ کر اپنے ہی اُس آرڈر کو روندھ ڈالا ہے جس پر انہوں نے 27 فروری 2023 کو دستخط کیے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کو یاد رکھیں کہ چیف جسٹس کی حیثیت تمام ججز کے برابر ہوتی ہے ، یعنی چیف جسٹس کے پاس بھی وہی پاورز ہوتی ہیں جو برادر ججز کے پاس ہوتی ہیں۔ لیکن وہ چیف جسٹس اس لیے ہوتا کیونکہ وہ ایڈمنسٹریٹو پاورز "انتظامی اختیارات” رکھتا ہے۔ "انتظامی اختیارات” کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کیس لگواتے ہیں اور بینچز تشکیل دیتے ہیں۔ اگر عمر عطا بندیال سے دیگر ججز نے یہ اختیارات واپس لینے ہیں تو اُنہیں پارلیمنٹ کے پاس جانا پڑے گا اور پارلیمنٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کرانا پڑے گا۔ پھر تمام ججز برابر ہوجائیں گے کیونکہ چیف جسٹس کے پاس صرف ایکسٹرا ایڈمنسٹریٹو پاورز (اضافی انتظامی اختیارات) ہوتی ہے۔