الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات تو واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کو اختیار نہیں تھا۔ بظاہر لگتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ بڑھانے کا آرڈر جلدبازی میں لکھا گیا ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کا مستقبل کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے انتخابات کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کردی۔ تحریک انصاف کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض اٹھا دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ ایک بات تو طے ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں تھا ، بظاہر لگتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ بڑھانے کا آرڈر جلدبازی میں لکھا گیا ہے۔ انتخابات کے لیے سیاسی پختگی بھی بہت ضروری ہے۔ حالات کی وہ کون سے سطح ہے جہاں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔ صرف ایمرجنسی کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کی تقاریر پر پابندی یقینی بنانے کی درخواست

آمدن سے زائد اثاثے کا کیس؛ اپنے ہی گھر میں قید سراج درانی کی ضمانت کی درخواست

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات تو واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کو اختیار نہیں تھا۔ بظاہر لگتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ بڑھانے کا آرڈر جلدبازی میں لکھا گیا ہے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کی جانب سے دہشتگردی اور فنانس کی عدم دستیابی کو بنیاد بنایا انتخابات کو ملتوی کرنے پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور اعوان، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور دیگر موجود تھے۔

چیف جسٹس کا کہن تھا ک دہشتگردی آج کا مسئلہ نہیں بلکہ 1990 کا مسئلہ ہے ، ان حالات کے باوجود انتخابات ہوتے چلے آئے ، جب اے این پی اور پیپلز پارٹی نے قربانیاں دیں تب بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے کہا گیا ایک جانب کہاجارہا ہے کہ فنانس موجود نہیں ہے ، جبکہ دوسری جانب لیب ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے فراہم کیے جارہے ہیں۔

اس موقع پر فواد چوہدری اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ترقیاتی فنڈز کے لیے 70 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس کا کہن تھا کہ 80 ارب روپے کا تو ابھی سے بندوبست ہوگیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی انتخابی قدغن نہیں لگائی گئی۔ لیکن 170 ارب روپے کی کولیکشن کا ہدف دیا گیا ہے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر کی جانب سے کہا گیا کہ محصولات کا ہدف آپ جتنا چاہے بڑھا لیں آپ دو سو ارب تک بڑھا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کی تاریخ میں توسیع ہو سکتی ہے؟

چیف جسٹس کا استفسار تھا کہ ’’ہم معاملے کو بڑھانا نہیں چاہتے‘‘ ، عدالت کے سامنے سوال آسان تھا کہ کیا الیکشن کی تاریخ بڑھائی جا سکتی ہے یا نہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر ای سی پی کے پاس [تاریخ بڑھانے کا] اختیار ہے تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔‘‘

چیف جسٹس بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اے جی پی نے کیس میں سیاسی جماعتوں کو مدعا بنانے کے لیے نکتہ اٹھایا تھا۔ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی ضروری ہے اور قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت چل نہیں سکتی۔ اگر سیاسی درجہ حرارت اتنا ہی بلند رہا تو مسائل بڑھیں گے۔

اس موقع پر پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج ملک میں "انتشار اور فاشزم” ہے۔

دریں اثنا، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے دو ججوں کے اختلافی نوٹوں کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیر کے روز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے یکم مارچ کے ازخود نوٹس کے فیصلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی 4-3 کی اکثریت سے مسترد ہوئی، اور استدعا کی کہ چیف جسٹس متعلقہ ججوں کی رضامندی کے بغیر بنچوں کی تشکیل نو کا اختیار نہیں رکھتا۔

اٹارنی جنرل اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت کا فیصلہ [یکم مارچ کو] چار سے تین کی اکثریت سے منظور کیا جاتا تو کوئی حکم نہیں تھا جس کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ "یہاں سوال فیصلے سے متعلق نہیں بلکہ ای سی پی کے اختیارات کا ہے۔”

چیف جسٹس کا یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار صرف درخواست تک محدود نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ تکنیکی بنیادوں پر معاملے کو خراب نہ کریں۔ سپریم کورٹ کا یکم مارچ کا حکم پہلے ہی نافذ ہو چکا ہے۔ اس معاملے کو نہ اٹھائیں اور نہ ہی اسے دوبارہ عدالت میں پیش کریں۔

جسٹس جمال خان منوخیل نے اس موقع پر کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے”۔

اس کے بعد انہوں نے استفسار کیا کہ کیا 90 دن کی مقررہ مدت میں انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا نہیں؟ کیا ای سی پی انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کر سکتا ہے؟

اس پر، چیف جسٹس نے "معاملہ صاف کرنے” پر جسٹس مندوخیل کا شکریہ ادا کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ "ملک بھر میں لوگ آج سبسڈی والی آٹے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ یہ پی ٹی آئی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے حالات کو بہتر بنائیں،” انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام قومی اداروں کا احترام کرنا ضروری ہے۔

دلائل کا سلسلہ جاری تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر