چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کا بل قومی اسمبلی میں پیش: صدر مملکت کا ردعمل کیا ہوگا؟

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے ایک دن میں سپریم کورٹ کی جیوریڈکشن پر دو دو حملے کیے ہیں۔ اب دیکھنے کا معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیا ایکشن لیتی ہے؟۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات سے متعلق بل وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ جس کے تحت کسی بھی ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز پر مشتمل بینچ کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کا بل تو پیش کردیا گیا لیکن کیا صدر مملکت اس بل کی منظوری کے لیے دستخط کریں گے؟ اور کیا سپریم کورٹ اس سارے معاملے پر خوش بیٹھی رہی گی؟۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اراکین اسمبلی کی درخواست پر بل پر مزید غور کے لیے قائمہ کمیٹی برائے قانون کے سپرد کردیا ہے ، اور کمیٹی کو آج تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

میرے قتل کی سازش میں رانا ثناء اللہ کا کلیدی کردار ہے، عمران خان

بات سیاست سے آگے چلی گئی ہے اب یا ہم رہیں گے یا عمران خان، رانا ثناء اللہ کی دھمکی

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات سے متعلق (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023) کے نام سے پیش کیا ہے۔

وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے صوابدیدی اختیارات کو کم کرنے کے لیے قانون سازی کے مسودے کی منظوری دے دی ہے۔

 بل میں اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے جانے والے کسی بھی از خود نوٹس کا فیصلہ عدالت کے تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک بینچ کرے گا۔

 بل میں کہا گیا ہے کہ ” عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔”

بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرنے والے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر 30 دنوں کے اندر اپیل سپریم کورٹ کی بڑی بینچ کے پاس جائے گی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی سے یہ قرار داد بھی منظور کرالی گئی کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔

یہ پیشرفت ملک میں چیف جسٹس آف پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت بینچوں کی تشکیل، مقدمات کو ‘فکس’ کرنے اور مفاد عامہ کی کارروائی شروع کرنے کے صوابدیدی اختیارات پر ملک میں بڑھتی ہوئی بحث کے درمیان سامنے آئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بحث کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بل کی منظوری کے لیے صدر مملکت کی تصدیق ضروری ہوگی اور کیا وہ اس بل کی منظوری کے لیے دستخط کریں گے؟۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بل تو 15 دنوں کے بعد خودبخود منظور ہو جائے گا ، لیکن صدر مملکت اس کو 15 دنوں تک تو روک سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے ایک دن میں سپریم کورٹ کی جیوریڈکشن پر دو دو حملے کیے ہیں۔ اب دیکھنے کا معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیا ایکشن لیتی ہے؟۔ اور صدر مملکت کیا ایکشن لیتے ہیں؟۔

متعلقہ تحاریر