انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوجائے تو شیڈول آگے پیچھے کرنے کا اختیار ہے، وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ جب صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا تو اس شیڈول میں وہ ردوبدل کرسکتے ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاخیر کا کیس ، چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے دہشتگردی تو 20 سال کا مسئلہ ہے ، گذشتہ سالوں میں بہت انتخابات ہوئے ، کچے کے علاقے میں تو ہر دوسرے سال آپریشن ہوتا ہے ، 90 کی دہائی میں تین انتخابات ہوئے ، الیکشن کمیشن کو کس کی گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ، 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں۔ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلتے رہنے دینا ہے ، علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو اپنے اپنے موکلوں سے سیاسی درجہ کم کرنے کی ہدایت لے کر آنے کا کہنا تھا۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کرائیں گے۔ انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاخیر کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران کیا۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن نے حکومت کو ماہانہ 1 ارب ڈالر دینے کی آفر کردی
چین کے 2 ارب ڈالر قرض کے رول اوور ہونے کی تاحال باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے 6 گھنٹے سے زائد وقت تک سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ جب گورنر اور صدر تاریخ دے دیں تو آپ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے صرف رپورٹس پر چھ ماہ بعد کی تاریخ دے دی ، آپ اپنی آئینی ذمہ داری سے بھاگ رہے ہیں۔
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئینی ذمہ داری سے نہیں بھاگ رہے۔ شیڈول کو آگے پیچھے کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کیس میں اہم موڑ اس وقت آیا جب دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ چار تین سے ہے ، اکثریت فیصلے نے انتخابات ازخود نوٹس کیس کو مسترد کیا تھا ، اکثریتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ انتخابات کا حکم نہین دے سکتی ، آرڈر آف دا کورٹ چار ججز کا فیصلہ ہے، کس آرڈر کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے شیڈول تبدیل کیا۔ کس بنیاد پر صدر سے مشاورت کرکے تاریخ طے کی گئی ، صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیسے کردیا۔میں اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں ، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے انتظامی مسائل کو اندرونی معاملہ کہا تھا۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر کہنا تھا کہ کیا اقلیت خود ساختہ طور پر یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ وہ اکثریت میں ہے؟۔ اگر جمال مندوخیل یہ ریمارکس نہ دیتے تو میں یہ بات نہ کرتا۔ عدالت میں بیٹھے پانچ ججز سن کر فیصلہ کریں اور دو جج کہیں ہمارا فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ہمارا چیمبر میں جو کچھ ہوا وہ یہاں زیربحث نہیں آنا چاہیے۔ آئین کہتا ہے کہ صاف و شفاف انتخابات ہونے چاہئیں۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ جب صدر پاکستان کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا تو اس کے بعد اس شیڈول میں وہ ردوبدل کرسکتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کی صورتحال بہت خراب ہے ، خیبر پختونخوا میں دہشتگردی تیزی سےبڑھ رہی ہے۔ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور بھکر میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ بہت سنجیدہ قسم کے تھریٹس ہیں جس بنا پر ملک میں فوری طور پر انتخابات نہیں ہوسکتے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا ان آپریشنز کی وجہ سے ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے مصروف ہیں ، مجموعی طور پر چھ ماہ کا وقت مانگا گیا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے، تاکہ ان آپریشنز کو مکمل کرکے 8 اکتوبر کو انتخابات کرائے جاسکیں۔
اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اس وقت میں جو سیاسی تناؤ ہے اس کا واحد حل صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔