صدر مملکت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 حکومت کو واپس بھجوا دیا
ڈاکٹر عارف علوی نے واپس بھجوائے گئے بل کے ساتھ اپنی معروضات بھی حکومت کو دی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا بل حکومت کو واپس بھجوا دیا ہے ، یہ بل قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا اور اس کے بعد سینیٹ سے اس منظوری لی گئی تھی۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ سے منظوری کے بعد عدالتی اصلاحاتی بل منظوری کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف کو بھیجا گیا تھا۔ صدر مملکت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔
یہ بھی پڑھیے
جب ہم نیوٹرل نیوٹرل کھیل رہے تھے وہ اپنے خان کے لیے سازشیں تیار کررہے تھے، بلاول بھٹو زرداری
توشہ خانہ فوجداری کیس: نوٹسز موصول نہ ہونے کی بنیاد پر سماعت 11 اپریل تک ملتوی
صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 نظرثانی کے لیے حکومت کو واپس بجھوا دیا ہے۔
President Dr Arif Alvi has returned the Supreme Court (Practice and Procedure) Bill, 2023 for reconsideration to the Parliament as per the provisions of the Article 75 of the Constitution, stating that the Bill prima-facie travels beyond the competence of the Parliament – pic.twitter.com/SM7HXVVa5Q
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) April 8, 2023
صدر مملکت نے کہا ہے کہ یہ بل مصنوعی اور ناکافی دلائل کی بنا پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میرے خیال میں یہ بل نظرثانی کے لیے واپس بھیجا جانا ضروری ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیلیں ، ایڈوائزری اور ریویو اختیارات سے نوازتا ہے۔ مجوزہ بل آئین کے آرٹیکل 184 (3) عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔ اور مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا جو طریقہ کار ہے وہ فراہم کرنا ہے۔
صدر مملکت نے کہا ہے کہ آئین ایک اعلیٰ قانون ہے ، جو قوانین کا باپ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
صدر مملکت نے لکھا ہے کہ آرٹیکل 67 اور آرٹیکل 191 قوائد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے ، آرٹیکل 67 اور آرٹیکل 191 ملتے جلتے ہیں۔
صدر مملکت نے لکھا ہے کہ ریاست کے تینوں ستوں کے دائرہ اختیار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے، جانچ شدہ قوائد میں چھیڑ چھاڑ عدالتی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو گی۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 پر 1980 سے عمل کی جارہا ہے۔
صدر مملکت نے لکھا ہے کہ ہے کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کی خود آئین نے توثیق کی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے آرٹیکل 191 کو دستور پاکستان میں شامل کیا گیا۔ پارلیمنٹ کا قانون سازی اختیار بھی آئین ہی سے اخذ شدہ ہے۔ بل کے ان پہلوؤں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔