عدالت عظمیٰ پارلیمان کی عزت و توقیر کا خیال رکھے، اسپیکر قومی اسمبلی کا چیف جسٹس کے نام خط

خط کے متن کے مطابق قومی اسمبلی شدت سے محسوس کرتی ہے کہ حالیہ فیصلے قومی اسمبلی کے دو بنیادی آئینی فرائض میں مداخلت ہے، ان آئینی امور میں قانون سازی اور مالیاتی امور پر فیصلہ سازی ہے، آپ کی توجہ آئین کے آرٹیکل 73 کی طرف مبذول کراتا ہوں۔

رہنما پیپلز پارٹی اور اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اراکین قومی اسمبلی کے تحفظات پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سمیت دیگر ججز کو خطوط لکھ دیئے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے حکم کے مطابق پنجاب میں انتخابات کے لیے پیسے نہیں دیئے جاسکتے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب ایسا  لگتا ہے کہ صرف وزیراعظم ہی نہیں ساری قومی اسمبلی نااہل ہو جائے گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے خط میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو تشویشناک اور بے چینی کا باعث قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے بطور اسپیکر ، قومی اسمبلی کے ارکان کی آراء اور جذبات کی روشنی میں یہ خط لکھا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام لکھا گیا گیا خط ’پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت ‘ کے عنوان سے 5 صفحات پر مشتمل ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بینچ اچانک ڈی لسٹ کردیا گیا، نوٹی فیکیشن جاری

خط کے متن میں راجہ پرویز اشرف نے لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان کے محافظ کے طور پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں ، سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلوں، ججوں کے تبصروں پر عوامی نمائندوں کے اضطراب اور تشویش کے اظہار کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں۔

خط کے متن کے مطابق قومی اسمبلی شدت سے محسوس کرتی ہے کہ حالیہ فیصلے قومی اسمبلی کے دو بنیادی آئینی فرائض میں مداخلت ہے، ان آئینی امور میں قانون سازی اور مالیاتی امور پر فیصلہ سازی ہے، آپ کی توجہ آئین کے آرٹیکل 73 کی طرف مبذول کراتا ہوں۔

سپریم کورٹ کے نام خط میں لکھا گیا ہے کہ آرٹیکل 73 کے تحت مالیاتی بل کی منظوری قومی اسمبلی کا خاص اختیار ہے، آئین کے آرٹیکل 79سے 85تک کے تحت قومی خزانے سے اخراجات کی منظوری منتخب نمائندوں کا اختیار ہے، آئین کی ان واضح شقوں اور اختیارات کی تقسیم کے تناظر میں قومی اسمبلی کی تشویش اور بے چینی سے آپ کو آگاہ کررہا ہوں۔

خط کے متن میں لکھا گیا ہے کہ 14 اور 19 اپریل کو تین رُکنی بینچ نے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو الیکشن کمشن کو 21 ارب جاری کرنے کے احکامات دیئے، قومی اسمبلی کی طرف سے رقم دینے سخت ممانعت کے باوجود یہ حکم جاری کئے گئے، اسپیکر کے خط میں قومی اسمبلی کی منظور کردہ قراردادوں ، مجلس قائمہ خزانہ کے فیصلے کے حوالے بھی شامل ہیں۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ 10 اپریل کو قومی اسمبلی نے الیکشن کمشن کو 21 ارب جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، 17 اپریل کو مجلس قائمہ خزانہ نے وزارت خزانہ کو پہلے قومی اسمبلی سے منظوری لینے کی ہدایت کی، اس اقدام کا مقصد بلااجازت اخراجات کی آئینی خلاف ورزی سے بچنا تھا۔

راجہ پرویز اشرف نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ دیگر اخراجات کے عنوان سے 21 ارب کی ضمنی گرانٹ کی قومی اسمبلی سے بعدازاں منظوری کو مسترد کردیاگیا، افسوس ہے کہ تین رُکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے آئینی عمل اور استحقاق کو مکمل نظرانداز کیا، ظاہر ہوتا ہے کہ تین رُکنی بینچ نے عجلت میں حکم دیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے خط کے مطابق تین رُکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا عام معمول سے ہٹ کر حکم دیا، رقم جاری ہوجانے کے بعد غالب امکان یہی ہے کہ قومی اسمبلی اسے مسترد کردے گی، بلااجازت رقم جاری کرنے کے وفاقی حکومت کے لئےسنگین اثرات ہوں گے۔

چیف جسٹس کے نام خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ تین رُکنی بینچ نے رقم جاری نہ ہونے پر وفاقی حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ قومی اسمبلی کو تابع بنانے کی کوشش ہے، یہ اقدام آئینی طریقہ کار کے خاتمے کے مترادف ہے۔

خط کے متن میں لکھا گیا ہے کہ واضح ہے کہ یہ حکم ناقابل قبول اور قومی اسمبلی کے اختیار ،استحقاق اور دائرہ کار کی توہین ہے۔ عدلیہ کو تشریح کا اختیار ہے، آئین ’ری۔رائٹ‘ کرنے کا نہیں، عدلیہ کو پارلیمنٹ کی خودمختاری کم کرنے کا اختیار نہیں۔

راجہ پرویز اشرف نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ جج صاحبان نے آئین کے دفاع، تحفظ اور اسے قائم رکھنے کا حلف اٹھارکھا ہے، قومی اسمبلی کی پختہ رائے ہے کہ خزانے سے متعلق فیصلہ سازی صرف قومی اسمبلی کا اختیار ہے، آئین اور عوام کی طرف سے ملنے والے اختیار واستحقاق کا قومی اسمبلی بھرپور دفاع کرے گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے خط میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی دستوری طریقہ کار سے انحراف یا متعین مطلوبہ عمل سے روگردانی کی مزاحمت کرے گی، قومی اسمبلی کاموقف ہے کہ ازخود نوٹس کے تحت کارروائی تین کے مقابلے میں چار ججوں نے مسترد کردی ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ 4، 14 اور 19 اپریل کے احکامات قانونی نہیں، اختیارات کی دستوری تقسیم پر پختہ یقین رکھتے ہیں، عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر ادارہ دوسرے کے اختیارکا احترام کیاجائے، ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازعہ قومی مفاد کے لئے نہایت تباہ کن ہے۔

خط کے متن میں لکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی، آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں۔

خط کے متن میں لکھا گیا ہے کہ رقم کے اجراکے لئے بار بار کے حکم سے غیرضروری تنازعہ قومی مفاد کے لئے نہایت تباہ کن ہے، قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی، آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ افسوسناک کے زیادہ تر اعلی عدلیہ نے غیرجمہوری مداخلت کی توثیق کی، پاکستان کے عوام نے خون اور قربانیاں دے کر ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور ہمیشہ فتح مند ہوئے، پاکستان کے عوام نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے۔

متعلقہ تحاریر