آڈیو لیکس جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن، چیف جسٹس نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کے قیام کو عدلیہ کی حدود میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی  ساری کارروائی کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس فائز عیسیٰ جوڈیشل کمیشن کو کام سے روک دیا ، کمیشن کے قیام کا نوٹی فیکیشن  معطل کردیا گیا ، جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر حکم امتناع دے دیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا جوڈیشل کمیشن کا قیام حکومت کی جانب سے عدلیہ کی حدود میں مداخلت ہے جو کسی صورت برداشت نہیں، کسی بھی کمیشن کے قیام کےلیے چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے ، حکومت کی جانب سے ججز کے نام دینے سے شبہات نے جنم لیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے آڈیو لیکس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں پر تحریری حکم جاری کردیا گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے 

برطانیہ کو الوداع کہہ کر وطن لوٹنے والی ملیکہ بخاری سیاست چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں

چیف جسٹس نے آڈیو لیکس باڈی کی تشکیل کو سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش قرار دیا

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل لارجر بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔

آڈیو لیکشن جوڈیشل کمیشن سے متعلق فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں پر 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے پیمرا کی جانب سے جاری ہونے والا ٹرانسکرپٹ بھی معطل کردیا۔

فیصلے میں قرار دیا گیا  کہ آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کا قیام خلاف قانون ہے۔

فیصلے میں  یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ "وہ چیز جو کہ خود خلاف قانون ہے ، یعنی کسی کی گفتگو اس کے علم میں لائے بغیر ریکارڈ کرنا جرم ہے۔ تو پھر اس کے خلاف ہونے والی انکوائری کیسے قانونی ہوسکتی ہے؟ انکوائری تو اس بات کی ہونی چاہیے تھی کہ آڈیو ریکارڈ کون کررہا ہے۔ اس بات کی انکوائری کی جارہی ہے کہ لوگ بات کیا کررہے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر سپریم کورٹ اور نہ ہی ہائی کورٹ کے کسی بھی سیٹنگ جج کو کسی کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے اس جوڈیشل کمیشن کی انکوائری کو روکنے کا حکم دیتے ہیں۔

فیصلے میں کہا ہے کہ پیمرا کی جانب سے جاری ہونے والے ٹرانسکرپٹ کو معطل کیا جاتا ہے۔

اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کا نوٹیفکیشن بظاہر آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی ہے، ججز و تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ یہ کوشش غیر ارادی ہو سکتی ہے، اس طرح کے معاملات میں احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

سماعت

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ وہ خود کو بینچ سے الگ کرلیں۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقصد کے لیے کیسے چن سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ بہت ہو گیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔

چیف جسٹس بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اپنی مرضی کے مطابق ججز کو بینچز میں شامل نہیں کر سکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے جب پی ٹی آئی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے تو عدلیہ پر تنقید کرنے والے بیانات بند ہو گئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے انتظامی اختیارات میں مداخلت نہ کریں۔”انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔

جسٹس بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جلد بازی میں قانون سازی کی۔ "اگر حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو ہم [آپ کو] بہتر راستہ دکھاتے۔ آپ نے ضمانت اور خاندانی مقدمات کو بھی قانون سازی کا حصہ بنایا ہے۔‘‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے آئین میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فون ٹیپنگ پہلے کس نے کی، چیف جسٹس نے آبزرویشن دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’’فون ٹیپنگ غیر آئینی سرگرمی میں‘‘۔

اس دوران جسٹس منیب اختر نے بھی ریمارکس دیئے کہ ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کرنا نہ صرف غیر قانونی فعل ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس معاملے میں عدالتوں کی آزادی پر سوال بھی اٹھ سکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ شاہین نے اتفاق کیا۔ انہوں نے روشنی ڈالی، "یہ سوال کہ آڈیوز کو کس نے ٹیپ کیا، انکوائری کمیشن کے کوڈ میں کہیں نہیں لکھا گیا۔”

وکیل نے مزید کہا کہ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ فون ٹیپنگ کا عمل قابل قبول ہے۔ "حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ اس کی کوئی ایجنسی فون ٹیپ کرنے میں ملوث نہیں تھی۔”

یہاں چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ بے نظیر بھٹو حکومت کا کیس فون ٹیپنگ کے حوالے سے موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں بھی رولز مرتب کیے گئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ "لیکن یہ کون طے کرے گا کہ کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی؟”

ایڈووکیٹ شاہین نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیارات سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہیں۔ تاہم وکیل نے نشاندہی کی کہ موجودہ صورتحال میں ایس جے سی کا اختیار انکوائری کمیشن کو دیا گیا ہے۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیکس کو محض مفروضوں پر درست مان لیا گیا۔

بنچ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج ہی معقول حکم جاری کرے گا۔

مرکز کمیشن بناتا ہے۔

20 مئی کو وفاقی حکومت نے ججز سے متعلق آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

ججز سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت نے تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا۔

کمیشن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق شامل ہیں۔

نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کمیشن کی سربراہی جسٹس عیسیٰ کریں گے۔ نوٹیفکیشن میں وفاقی حکومت کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی متنازع آڈیو لیکس میڈیا میں چل رہی ہیں۔ ججوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو نے ان کی غیر جانبداری کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس اور ہائی کورٹس کے ججز کی آڈیو نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

دستاویز میں کہا گیا کہ لوگوں نے ہائی کورٹس کے ججوں کی غیر جانبداری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پٹیشنز

اس سے قبل 22 مئی کو پاکستان تحریک انصاف نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ‘چیف جسٹس آف پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جا سکتا’۔

اس نے مزید کہا کہ جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

20 مئی کو وفاقی حکومت نے ججز اور عدلیہ سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

متعلقہ تحاریر