سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 کے قانون بننے کے بعد عرفان قادر کی سپریم کورٹ پر گولہ باری
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے سیاسی انجینئرنگ کے فیصلے صادر کرتے ہوئے دو منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا ہے کہ ہم سب آئین کے تابع ہیں ، ہمیشہ رہنے والی حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے ، اداروں کو ایک دوسرے کی حدود کا خیال رکھنا ہے۔ آئین کو عزت دینا ہوگی۔ جو لوگ آئین کی عزت کرتے ہیں تو ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ ہم بھی ان کی عزت کریں۔ ہمیں صرف آئین کو فوقیت دینی ہے۔ کسی فرد واحد کو پاکستان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کیا ، جو سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بننے کے فوری بعد کی گئی۔
عرفان خان کا کہنا تھا آج کی پریس کانفرنس کا مقصد پچھلے دس کے چند ایک کیسز کے فیصلوں پر روشنی ڈالنا تھی۔ بدقسمتی سے عدالتوں فیصلوں میں سیاست کو مدنظر رکھا گیا۔ کس طرح سے بینچز بنائے جاتے ہیں اور کس طرح سے چیف جسٹس صاحبان ٹائم ٹو ٹائم ہمارے ملک کی سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ملک کے مختلف اداروں اور خصوصی طور پر حکومت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کرتے رہے۔ ایگزیکٹوز کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کیس میں پوری کابینہ سمیت گھر بھیج دیا گیا۔ جبکہ آرٹیکل 58 ٹو بی ختم بھی ہوچکا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں قانونی نکتے موجود ہیں نااہل کرنے کے۔ لیکن یہ معاملہ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے اپنے اوپر لے لیا۔ اور انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا یہ کہہ کرکہ انہوں نے توہین عدالت کی ہے۔ وہ فیصلہ آئین پاکستان کی بہت بڑی خلاف ورزی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی 9 مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت مگر پارٹی نہ چھوڑنے کا اعلان
پی ٹی آئی سربراہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا نام ای سی ایل میں شامل
یوسف رضا گیلانی کے خلاف ہونے والے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات بیرونی دنیا کو پہنچائے۔ آئین پاکستان میں لکھا ہوا ہے کہ وزیراعظم کسی عدالت کو جواب دہ نہیں ہیں۔
تاریخ کو کھنگاتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا پھر کیس آیا پاناما لیکس کا۔ کیس کا نام تھا عمران احمد خان نیازی بنام میاں نواز شریف۔ جب اس کیس کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئی تو وہ پابندسلاسل ہو گئے۔ اور پھر خان صاحب وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ اس وقت بھی سیاسی انجینئرنگ کی گئی۔ اس وقت بھی پانچ ججز تھے ، ان میں سے ایک جج صاحب آج بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہیں۔ پاناما کیس کی ایک مظلومہ مریم نواز بھی تھیں۔ وزیراعظم کو یا حکومت کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا جاسکتا ہے ، مگر دو حکومتیں عدالتوں نے گرائیں۔
عرفان قادر کا کہنا تھا جب میاں نواز شریف کی نااہلی ہو گئی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی؟ ، پھر ایک اور بینچ بنا ، جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کی۔ اس بینچ میں ثاقب نثار ، عمر عطاء بندیال ، اعجاز الاحسن ، عظمت سعید اور سجاد علی شاہ صاحب شامل تھے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ یہ نااہلی تاحیات ہے۔ آئین پاکستان میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ ایسا شخص کسی پارٹی کا سربراہ رہ سکتا ہے۔ اور پھر اپنی موضی سے قانون کو موڑ کر یہ کہا گیا کہ اب یہ پارٹی ہیڈ بھی نہیں ہوسکتے۔
پھر ایک بینچ بنا جس نے بنی گالہ کی زمین کو ریکولیٹ کرنے کےلیے سیاسی انجینئرنگ کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔
پھر ایک بینچ بنا جس سے ڈیم فنڈ قائم کیا ، اور سپریم کورٹ ڈیم بنانے چلے گئی ، کیا ڈیم بنانا سپریم کورٹ کا کام ہے؟۔ اس بینچ میں بھی جسٹس ثاقب نثار ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عمر عطاء بندیال وغیرہ تھے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پھر ایک مسئلہ اٹھا کہ سوموٹو نوٹس کون لے سکتا ہے؟ آئین سپریم کورٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ سوموٹو نوٹس صرف چیف جسٹس لے سکتے ہیں۔ وہاں تو آرٹیکل 184 تھری کی پاورز سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہے چیف جسٹس کے پاس نہیں ہے۔