عمران خان کی تقاریر اور تصاویر نشر کرنے پر پابندی، ماضی کا ناکام تجربہ پھر دہرایا جارہا ہے

تمام میڈیا چینلز پر چیئرمین تحریک انصاف کی تقریر اور تصویر پر پابندی عائد کردی گئی ہے مگر ابھی تک پیمرا کی جانب سے کوئی باقاعدہ نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت ایک مرتبہ پھر سے ماضی کا تجربہ دھرنے جارہی ہے ، متعدد صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے خبر دی ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کا نام اور تصویر ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے تاہم پیمرا کی جانب سے ابھی تک کوئی آفیشل آرڈر جاری نہیں ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مریم نواز کی تقریر تو عمران خان کے نام سے شروع ہوتی ہے اور ختم بھی عمران خان کے نام پر ہوگی ہے ، اس پر چینلز کیا کریں گے کیا بار بار بیپ بیپ کا آپشن استعمال کریں گے۔ بہرحال کچھ بھی ہو اس وقت عمران خان ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں۔

2016 میں فوج کے خلاف تقریر کرنے پر حکومت پاکستان نے بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) الطاف حسین کی تصویر اور تقریر پر پابندی عائد کردی تھی۔ جس کیس کی سماعت آج بھی عدالتوں میں زیرالتواء ہے۔

یہ بھی پڑھیے 

پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری نے شاہ محمود قریشی کو مائنس عمران خان فورمولا دے دیا، ذرائع

میری جان کو تین لوگوں سے خطرہ ہے چیف جسٹس صاحب نوٹس لیں، شیخ رشید

لیکن کیا الطاف حسین کو سندھ کی سیاست خصوصی طور پر کراچی کی سیاست الگ کیا جاسکے ، تو اس کا جواب نہ میں ہوگا۔ کیونکہ کراچی کی سیاست سے آج بھی الطاف حسین کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال حالیہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات تھے جس کا بائیکاٹ ایم کیو ایم کے بانی  الطاف حسین نے کیا تھا اور سندھ میں جہاں کہیں بھی مہاجر بستے تھے سب نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔

اس طرح سے گوجرانوالہ جلسے میں فوج کے خلاف لب کشائی کرنے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا میڈیا بلیک آؤٹ کردیا گیا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہوا۔ اگر ایماندار سے جواب تلاش کیا جائے تو یہاں بھی جواب نہ ہی میں ملے گا۔

آج کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کی کرسی پر براجمان ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ملکی معاملات چلانے کے لیے نواز شریف سے مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔

معروف صحافی احتشام الحق نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” عمران خان کے نام اور تصویر پر اب سے پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر پابندی ہے۔”

معروف صحافی اور تجزیہ کار معیذ پیرزادہ نے چیئرمین تحریک انصاف پر پابندی کے حوالےسے خبر دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا ہے کہ ” ٹی وی اسکرینوں پر عمران خان کی تصویر اور نام پر پابندی اگر درست ہے تو یہ نہ صرف مایوسی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ کسی احمقانہ سوچ سے انہیں اپنی پارٹی، پیروکاروں اور بین الاقوامی میڈیا تک رسائی سے محروم کرنے کے جامع منصوبے کا حصہ بھی ہوسکتا ہے! آئیے دیکھتے ہیں کہ 10 جون تک معاملات کیسے کھلتے ہیں!۔”

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے قانونی مشیر بابر اعوان نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس خبر کو شیئر کرتے ہوئے ہوئے لکھاہے کہ ” عمران خان کے خوف سے، اُن کا نام اور تصویر، ٹی وی چینلنز پر چلانے پر پابندی کی خبر آرہی ہے۔ پھر تو حکومت کو 1992 ورلڈ کپ کے نتائج کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کرنی چاہیے۔”

بابر اعوان نے مزید طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ویسے شہباز اور مریم، عمران خان کا نام نہ لیں تو اُن کی تقریر ہوگی کیا؟۔”

تجزیہ کاروں کا اس پابندی  پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ٹھیک ہے عمران خان کی تصویر اور تقریر پر تو پابندی لگ سکتی ہے کیونکہ وہ  ایک شخص ہے ، مگر وفاقی وزراء ، مریم نواز اور خود وزیراعظم شہباز شریف صاحب کیسے اپنے آپ کو عمران خان کا نام لینے سے روکیں گے۔ کیونکہ ان سب لوگوں کے قصیدے کا "مین موٹو” تو ہوتا ہی عمران خان ہے۔ یا تو پھر ان سب پر بھی پابندی لگانا ہوگی۔

متعلقہ تحاریر