عمران خان نے کھل کر فوج کو اپنی جماعت توڑنے کی کوششوں کا مرتکب قرار دیدیا
کوئی شک نہیں کہ ملٹری کورٹس کا مقصد مجھے جیل بھیجنا ہے، میرا خیال ہے کہ جنرل عاصم منیر کو اس بات کا رنج ہےکہ میں نے انہیں آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹایاتھا، عمران خان نے 9 مئی کے پر تشدد مظاہروں کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیدیا
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پاک فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کو کھلے عام تحریک انصاف کو ختم کرنے کی کوششوں کا مرتکب قرار دیدیا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلاکر انہیں جیل بھیجا جائے گا۔ انہوں نےالزا م عائد کیا ہے کہ ملٹری کورٹس کا مقصد انہیں جیل بھیجنا ہے۔سابق وزیراعظم نے پرتشدد احتجاج کو انہیں نشانہ بنانے کیلیے کیا گیا فالس فلیگ آپریشن قرار دیدیا۔
یہ بھی پڑھیے
لاہور کی مقامی عدالت سے ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت، پنجاب پولیس کی قلابازیاں جاری
چوہدری شافع کی چوہدری پرویز الہیٰ کو دوبارہ قاف لیگ میں شمولیت کی دعوت
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق عمران خان ماضی میں یہ حوالہ دیتے آئے ہیں کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کیخلاف جاری کریک ڈاؤن میں فوج کا ہاتھ ہے لیکن ہفتے کی رات لاہور میں واقع اپنی رہائشگاہ میں دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے اب تک کا سب سے بےباک تبصرہ کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان سے سوال کیا گیا کہ کریک ڈاؤن کےپیچھےکس کا ہاتھ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ”یہ کلی طور پر اسٹیبلشمنٹ ہے“۔
انہوں نے واضح کیا کہ”اسٹیبلشمنٹ کا واضح مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے،کیونکہ وہ کھل کر سامنے آگئے ہیں،میرا مطلب ہے کہ اب یہ ڈھکاچھپا نہیں ہے، وہ کھل کر سامنے آچکے ہیں“۔رائٹرز کے مطابق پاک فوج کے ترجمان نے عمران خان کے الزامات پر تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔
عمران خان نےاپنی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کو”فالس فلیگ آپریشن“ قرار دیدیا ۔ جس کا مقصد انہیں نشانہ بنانا تھا۔انہوں نے کہاکہ”صرف یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے یہ لوگ مجھے جیل میں ڈال سکتے ہیں“۔انہوں نےالزام عائد کیا کہ فوج نومبر میں ہونے والے الیکشن میں انہیں اقتدار میں واپسی سے روکناچاہتی ہے۔
انہوں نےکہاکہ ان پر درج 150 فوجداری قوانین فضول نوعیت کے ہیں جنہیں کوئی بھی سول عدالت اٹھاکر باہر پھینک دے گی۔عمران خان نے مزیدکہاکہ”لہٰذا ان کی واحد امید ، اور چونکہ وہ مجھے راستے سے ہٹانے کیلیے پرعزم ہیں ،میرا خیال ہے کہ وہ ایسا کرنےمیں کامیاب ہوجائیں گے،ان کے فوجی عدالتوں کے مکروہ کھیل کا مقصد مجھے جیل بھیجنا ہے“۔
عمران خان نے کہاکہ موجودہ بحران سے نکلنے کاراستہ ڈھونڈنے کیلیے فوج سے رابطے کی کوشش کی لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملااور یہ کہ وہ نہیں جانتے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر انہیں سائیڈ لائن کیوں کرنا چاہتے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق نومبر 2022 میں آرمی چیف بننے سے قبل جنرل عاصم منیر 2019 میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ تھے،یہ وہ عہدہ ہے جس سے انہیں اچانک ہٹادیا گیا تھا۔
عمران خان کو بھی گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنے دفتر سے بے دخل ہونا پڑا تھا جس کا الزام انہو ں نے سرکردہ جرنیلوں پر لگایا تھا تاہم فوج اس الزام کو مسترد کرچکی ہے۔
رائٹرز کے مطابق جنرل عاصم منیر کو آئی ایس آئی کی سربراہی سےقبل ازوقت ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی لیکن اس انٹرویو میں عمران خان نے پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں(جنرل عاصم منیر کو) ان کے عہدے سے ہٹادیا جائے۔عمران خان نے کہاکہ”میراخیال ہے کہ وہ اس لیےرنجیدہ ہیں کہ میں نے بطور سربراہ آئی ایس آئی انہیں مستعفی ہونے کا کہا تھا،مجھے نہیں پتہ“۔
اس سوال پر کہ انہوں نے جنرل عاصم منیرکو عہدے سے کیوں ہٹایا تھا؟عمران خان نے کہا”آپ جانتے ہیں، بطور وزیر اعظم، میں نے محسوس کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسی کو کیسے چلایا جاتا ہے، مجھے اس سے مسائل تھے“۔تاہم انہوں نے ان مسائل کی تفصیل نہیں بتائی۔
جنرل عاصم منیر کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہاکہ”انہیں اب اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اب وہ آرمی چیف ہیں ،تو وہ اس رنجش کو کیوں پالیں گے؟“۔
عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے خلاف جاری مہم سے پریشان ہیں۔انہوں نے کہاکہ”میں ایساشخص ہوں جسے اس ملک میں 50 سال سے جاناجاتا ہے ، جس نے شاید اس ملک کے تمام ایوارڈحاصل کررکھے ہیں اورجو شایدسب سے معروف پاکستانی ہےاور اس کے ساتھ اچانک غیرملکیوں جیسا اور ریاست کے دشمن جیساسلوک کیاجارہا ہے“۔