احمد نورانی اور شاہد اسلم کو ہراساں کرنیکا سلسلہ بند کیا جائے، سی پی جے

سابق آرمی چیف اور انکے خاندان کے ٹیکس ریکارڈ کیخلاف رپورٹنگ کے بعد پاکستانی حکام کا احمد نورانی کو نشانہ بنانا آزادی صحافت کیلیے واضح دھمکی اور خطرہ ہے، احمد نورانی اور شاہد اسلم کیخلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات بند کی جائے، پروگرام کوآرڈینٹر برائے ایشیا

صحافیوں کے حقوق کیلیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کہا  ہے  کہ پاکستانی حکام کو صحافیوں احمد نورانی اور شاہد اسلم کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کرنا چایے  اور انہیں  بلاروک ٹوک کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔

سی پی جے  نے مئی کے اواخر میں پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ  کا جائزہ لیا ہے جس میں صحافیوں پر الزام عائد کیا  گیا ہے  کہ وہ ایف بی آر کے 3 افسران کی ملی بھگت سے  سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور  ان کے  اہلخانہ  کے ٹیکس ریکارڈ تک  رسائی حاصل کرنے میں ملوث ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جنرل (ر) باجوہ کا ٹیکس ریکارڈ لیک کرنے کا معاملہ: صحافی شاہد اسلم کی ضمانت منظور

صحافی احمد نورانی کی ویب سائٹ فیکٹ فوکس پاکستان میں کیوں بند ہوگئی؟

سی پی جے کے جائزے میں آنے والی   پہلی معلوماتی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے انسداد بدعنوانی سرکل نے 15 دسمبر کو ان بورڈ آفیشلز کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔  یہ تفتیش نومبر 2022 میں جنرل(ر)  باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں ایک مضمون کے بعد  کی گئی تھیں جو امریکا میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی  گزارنے والے صحافی احمد نورانی کی خودمختار   نیوز ویب سائٹ”فیکٹ فوکس “پر شائع ہوا تھا۔احمد نورانی نے فون پر سی پی جے کو بتایا کہ  حکومت پاکستان نے بعد میں فیکٹ فوکس تک  مقامی رسائی کو تقریباً 24 گھنٹے کے لیے روک دیا تھا۔

چالان کے نام سے جاری تحقیقاتی رپورٹ میں احمد نورانی کو اشتہاری مجرم قرار دیاگیا ہےاور کہا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری کیلیے قانونی کوششیں جاری ہیں۔احمد نورانی نےبتایا کہ اگر وہ ایف آئی اے  کے سامنےسرنڈر نہیں کرتے  تو ایف آئی اے ان کی جائیداد  اور اثاثے ضبط کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر سکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حکام نے چالان میں درج ان کے پاکستانی پتے پر عدالتی سمن یا وارنٹ گرفتاری نہیں بھیجے ۔

اسی چالان میں ایک فری لانس صحافی اور نجی نشریاتی ادارے بول نیوز کے سابق نمائندے شاہد  اسلم  کو ایف بی آر حکام کو ٹیکس ڈیٹاکے حصول کیلیے   رشوت کی پیشکش  کرنے کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے  ۔

شاہد اسلم  نے فون پر سی پی جے کو بتایا کہ  انہوں  نے خود پر عائد کردہ  تمام الزامات کی تردید کی ہے اور وہ فیکٹ فوکس  کے مضمون کا حصہ نہیں ہیں  ۔ شاہد اسلم نے سی پی جے کو بتایا کہ انہیں 19 جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا ہے، جس میں  بینچ ان کے اور ایف بی آر کے تین اہلکاروں کے خلاف الزامات کی نوعیت کا تعین کرے گا۔

رواں سال جنوری میں  ایف آئی اے نے شاہد اسلم کوڈیٹا لیک میں ملوث ہونے  کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرلیا۔ چالان اور شاہد اسلم کے مطابق ان  کا فون اور لیپ ٹاپ فرانزک تجزیہ کے لیے ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔

سی پی جے کے پروگرم کوآڑڈینٹر برائے ایشیا بیہ لیہ ژی نے کہاہے کہ  پاکستان کے سابق آرمی چیف اور ان کے خاندان کے ٹیکس ریکارڈز پر رپورٹنگ کے بعد جلاوطن صحافی احمد نورانی کو پاکستانی حکام کا نشانہ بنانا آزادی صحافت کے لیے ایک واضح دھمکی اور خطرہ ہے۔ حکام کو نورانی اور صحافی شاہد اسلم کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات کو ختم کرنا چاہیے اور اسلم کی گرفتاری کے دوران ضبط کیے گئے برقی آلات کو فوری طور پر واپس کرنا چاہیے۔

  اس سے قبل احمد  نورانی پاکستان کے انگریزی رونامہ دی نیوز انٹرنیشنل کے سینئر رپورٹرکے طور  پر کام کرچکے ہیں اور پاکستانی فوج اور خفیہ ادارروں کی تنقیدی کوریج کرتے تھے۔ وہ اکتوبر 2017 میں  اسلام آباد میں ایک مہلک حملے میں بال بال بچے تھے۔

احمد  نورانی نےسی پی جے کو بتایا کہ حکام حملے کے ذمے داروں کو  جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے مجرموں کی شناخٹ کیلیے  جیو فینسنگ نہیں کی ۔2020 میں جلاوطنی   کے دوران احمد نورانی کو ایک اور ریٹائرڈ جنرل کے بارے میں تنقیدی رپورٹنگ کرنے پر قتل  کی   دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔

اس حوالے سے سی پی جے نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل محسن بٹ اور اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل اکبر ناصر خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم  کالز اور پیغامات کا کوئی جواب نہیں ملا جبکہ سی پی جے جنرل باجوہ سے رابطے کی معلومات کے حصول میں بھی ناکام رہا۔

متعلقہ تحاریر