وزیر دفاع نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیز کا پوسٹ مارٹم کردیا
خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ نے بجٹ میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ، جبکہ اس ملک میں سالانہ 1000 ارب روپے ٹیکس چوری میں چلے جاتے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیز کا پوسٹ مارٹم کردیا، کہتے ہیں 75 سال سے بجٹ ایکسرسائز میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی گئی ، ملک کے معاشی حالات ابتر ہو گئے ہیں ، اسحاق ڈار نے بجٹ میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی۔ قوم کا ایک ایک بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔
ان خیالات کا اظہار وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی زاہد اکرم درانی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کا سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ ہماری آمدنی سود بھی کور نہیں کرپارہی۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان کامعاشی ویبنار سے خطاب؛ ملکی معیشت سے متعلق اہم اعلانات کردیئے
سمندری طوفان بپرجوئے: کراچی کی 500 سے زائد عمارتیں زمین بوس ہوسکتی ہے
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہم پر سود 60 فیصد سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ بجٹ کا 60 فیصد سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار نے جو بجٹ بنایا ، عام آدمی کے حالات اس بے بہتر بجٹ ڈیمانڈ کرتی تھی ، ہماری دہائیوں سے جاری معاشی ابتری کا سلسلہ جاری ہے ، معاشی ابتری کی وجہ سے عام آدمی کا سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے برخلاف ہم نے ایک ایسا طبقہ پیدا کرلیا ہے جس کے تمام طرح کی سہولیات اور مراعات ہیں۔ یہ صورتحال یہاں تک کیوں پہنچی کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ہماری آمدن سود کو بھی کور نہیں کرپارہی ، اس کے بعد ڈیفنس بجٹ آجاتا ہے اور گورنمنٹ کے اخراجات آجاتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں 20 فیصد کے قریب ہیں۔
خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ ہماری آمدنی میں کمی کی دو وجوہات ہیں ، ہماری دو وزارتوں کا ڈیٹ 1000 ارب سے زیادہ ہے۔ ایک وزارت کا ڈیٹ 700 ارب ہے ، اس کے اوپر 86 ارب روپے سود ادا کیا جاتا ہے ، جبکہ دوسری وزارت کا ڈیٹ 300 ارب ہے۔ دونوں وزارتوں کو جتنی جلدی ممکن ہو ان کو بند کردیا جائے، کیونکہ وہ جتنی جلدی بند ہو جائیں گی وہ اس ملک کے لیے اتنی بہتر ہے۔ لیکن ہم اپنی بےحسی کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دے رہے۔ ایسی آرگنائزیشن کو زندہ رکھنے کے لیے سالانہ ہزاروں ارب روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ جن کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔ یا ان کو زندہ رکھ کر اس میں پیسے پمپ کرنا ، میں سمجھتا ہوں ریاست کے خلاف جرم ہے۔ آپ کرائم ایگینسٹ اسٹیٹ کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب آپ اس آرگنائزیشن کو زندہ رکھنے کے لیے اس میں پیسہ انویسٹ کرتے ہیں۔ ایسے آرگنائزیشن جن کا مقصد غربت کو ختم کرنا تھا ، غربت تو ختم نہیں ہوئی غربت تو ویسے ہی موجود ہے۔ مگر ان اداروں کے سی ای اوز اور سی او او کی سیلیریز 30 ، 30 اور 35 ، 35 لاکھ روپے ہے۔ انہوں نے اپنی اپنی پوزیشن کی حفاظت کے لیے عدالتوں سے اسٹے آرڈر لیے ہوئے ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس ملک کا ایک ایک بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ آپ غربت ختم کرنے کے لیے بنائی گئی آرگنائزیشن میں رکھے گئے افراد کو اتنی اتنی سیلیری دیتے ہیں کیا کسی کو پتا ہے۔ حکومت کی جتنی بھی آرگنائزیشنز ہیں ان کے ہیڈ اپنی تنخواہیں خود طے کرتے ہیں۔ ایک لوٹ مار کا بازار گرم ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری انکم کا سورس سب سے بڑا ٹیکس ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ریئل اسٹیٹ میں سالانہ 500 ارب روپیہ چوری کرلیا جاتا ہے ، ریئل اسٹیٹ میں ایسے ایسے لوگ ہیں جن کا نام ٹیلی ویژن کے اوپر لینا منع ہے ، مثلاً ملک ریاض کا نام ٹیلی ویژن پر لینا منع ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ کی ڈکیتی میں وہ بھی شامل ہے۔