پاکستانی میڈیا نے عمران خان کی نشریات پر عائد پابندی کی مذمت کردی، گارجین
یہ مضحکہ خیز ہے کہ ہم عمران خان پر مقدمات کی خبر چلاسکتے ہیں لیکن ان کا نام اور تصویر نشرنہیں کرسکتے، عاصمہ شیرازی: پہلے نوازشریف، زرداری اور مریم نواز پر پابندیاں لگیں، اب عمران خان کی باری ہے، کچھ نہیں بدلا، حامد میر: میڈیا مالکان سے ملاقات میں اعلیٰ فوجی حکام نے عمران خان کو دشمن نمبر ایک قرار دیا، برطانوی اخبار
پاکستانی صحافیوں نے پیمرا کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی روشنی میں عمران خان کا نام اورتصویر دکھانے پرعائد کردہ پابندی کو مسترد کر دیا ۔
برطانوی اخبار گارجین کے مطابق پارلیمنٹ نے گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا جس کے بعد سے وہ شتعال انگیز تقاریر اور ٹویٹس کےذریعے حکومت اور فوج کیخلاف بیان بازی روزانہ میڈیا میں نمایاں کوریج حاصل کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان کامعاشی ویبنار سے خطاب؛ ملکی معیشت سے متعلق اہم اعلانات کردیئے
لاہور ہائی کورٹ کی آئی جی پنجاب کو عمران ریاض کی بازیابی کے لیے مزید 10 دن کی مہلت
مارچ میں پیمرا نے سابق وزیر اعظم کی تقاریر اور پریس کانفرنسوں کو نفرت انگیز اور ریاستی اداروں پر حملہ قرار دیتے ہوئے انہیں نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی ۔مئی میں بدعنوانی کے الزامات میں عمران خان کی گرفتاری نےان کے حامیوں کو ملک گیر احتجاج پر اکسایا ۔
ملک گیر احتجاج کے بعد پیمرا نے ایک ہدایت جاری کی جس میں میڈیا چینلز سے کہا گیا کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کو فروغ دینے والے افراد کو ایئر ٹائم دینے سے گریز کریں۔ ہدایت نامے میں عمران خان کا نام نہیں تھا لیکن صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ واضح تھا کہ ہدایت ان کیلیے ہی دی گئی تھیں۔
پرائم ٹائم میں حالات حاضرہ کے شو کی میزبانی کرنے والی سینئر صحافی اور سیاسی مبصرعاصمہ شیرازی نے کہاکہ”یہ مضحکہ خیز ہے کہ ہم عمران خان کیخلاف الزامات اور مقدمات کی خبرتو چلاسکتے ہیں لیکن ان کا نام اور تصویر نشر نہیں کرسکتے، یہ تمام حربے میڈیا کو دباؤ میں لانے کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں“۔
کئی دہائیوں تک اخبارات اور ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے معروف صحافی حامد میر نے کہا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے،پیمرا نے نواز شریف کی تقاریر اور انٹرویوز پر پابندی لگائی، آصف علی زرداری اور مریم نواز کے انٹرویوز نشر نہیں کیے، اب عمران خان کی باری ہے، کچھ بھی نہیں بدلا“۔
مقامی میڈیا کے ذرائع نے بتایا کہ میڈیا مالکان کو اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقات میں مدعو کیا گیا ہے جہاں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو کوئی کوریج نہ دیں۔
ٹی وی سے منسلک ایک سینئر صحافی نے کہا کہ”ملاقات میں واضح کیا گیا کہ عمران خان دشمن نمبر ون ہے“۔ ٹی وی میں کام کرنے والے ایک اور صحافی نے کہا کہ "ہمارے باس نے ہمیں واضح کر دیا ہے کہ اگر آپ عمران خان کا نام لیں گےتو خود ذمے دار ہوں گے“۔
گارجین کے مطابق 70سالہ سابق انٹرنیشنل کرکٹر عمران خان پر گزشتہ سال معزولی کے بعد سے 150 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے۔پاکستان ایک سال سے زیادہ عرصے سے معاشی اور سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے، جس میں اکتوبر کے وسط تک لازمی ہونے والے انتخابات سے قبل بہت کم مہلت متوقع ہے۔
عمران خان ان انتخابات کیلیے مقبولیت کی لہر پر سوار دکھائی دیے، ملک بھر میں بڑی ریلیاں نکالتے رہے، ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور سوشل میڈیا پر رات کو نشر ہونے والے قوم سے خطاب میں حکام کو برا بھلا کہتے رہے لیکن ان کی گرفتاری کے بعد ہونے والاتشدد، خاص طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا، بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا باعث بنا ہے۔
میڈیا کی آزادیوں پر نظر رکھنے والے فریڈم نیٹ ورک کے مطابق مئی میں پاکستان میں صحافیوں کو دھمکانے کے 24 واقعات سامنے آئے۔پروپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانے کیلیے مشہور پی ٹی آئی کے حامی صحافی عمران ریاض خان 11 مئی سے لاپتہ ہیں۔عاصمہ شیرازی کہتی ہیں”انہیں غائب نہیں کیا جانا چاہیے، پروپیگنڈے اور غلط معلومات کو فروغ دینے والوں کے خلاف قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے ‘‘۔
گارجین کے مطابق دھمکیاں صرف مقامی میڈیا تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ٹی وی میں کام کرنے والے ایک غیر ملکی نامہ نگار نے بتایا کہ انہیں عمران خان کے بارے میں رپورٹنگ بند کرنے کو کہا گیا تھا۔
صحافی نے کہا”اگرچہ ماضی کی حکومتیں بعض صحافیوں کیلیے سخت رہی ہیں، لیکن موجودہ حکومت میں مقامی میڈیا پر سخت زیرعتاب ہے ، حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔