سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف حکم امتناع کی درخواست مسترد
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواست پر 7 رکنی بینچ نے سماعت کی ، 9 رکنی بینچ میں سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے خود کو الگ کر لیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے جمعرات کے روز فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے ایک اور درخواست میں ڈاکٹر فیصل سلطان نامی کیس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان سے دلائل طلب کر لیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ، جس کے بعد 9 رکنی بینچ تحلیل ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیے
سابق وفاقی وزیر غلام سرور بھی عمران خان کے قافلے سے علیحدگی اختیار کرگئے
جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی ماضی کی پی پی مخالف تحریک استحکام پاکستان کا عسکری چربہ؟
سماعت دوبارہ شروع کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی کو بنچ پر کوئی اعتراض ہے تو وہ ابھی بتائیں۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان اور وکیل سردار لطیف کھوسہ دونوں نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس بندیال نے درخواست گزار پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے وکیل کو بتایا کہ ان کی درخواست میں سیاسی سوالات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے عدالت ابھی یہ نہیں سننا چاہتی کیونکہ ان کی توجہ فوجی عدالتوں پر مرکوز ہے۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 245 کے نفاذ کے بعد آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ 9 مئی کے تشدد کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ناقابل تردید ثبوت ہیں، ٹرائل فوجی عدالت میں چلیں گے؟
جس پر ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے اثبات میں جواب دیا اور پریس ریلیز پڑھ کر سنائی۔ پوری عسکری قیادت نے کہا ہے کہ ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اگر فارمیشن کمانڈرز کہتے ہیں کہ ناقابل تردید ثبوت ہیں تو کیا کوئی کرنل مقدمے میں مختلف فیصلہ دے گا؟
کھوسہ نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ 9 مئی کے مجرموں کو سزا نہ دی جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے استفسار پر وکیل نے ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے سے متعلق انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
پوچھے جانے پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 10 مئی کو 50 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف اسی رات کور کمانڈر ہاؤس پر حملوں کے سلسلے میں پانچ مقدمات درج کیے گئے تھے۔ تمام مقدمات دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے گئے، حالانکہ کسی ایف آئی آر میں آرمی ایکٹ کا ذکر نہیں ہے۔
ایف آئی آر میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں 4000 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے جب پوچھا کہ کیا فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے تو لطیف کھوسہ نے سوال کیا کہ انہیں چیلنج کرنے کی جرات کس میں ہو گی؟
جسٹس یحیٰ آفریدی نے پوچھا کہ فوجی عدالتوں میں کتنے لوگوں کو ٹرائل کے لیے بھیجا گیا ہے تو کھوسہ نے کہا کہ 10 ایک جگہ سے اور 20 دوسری جگہوں سے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراض کے بعد بینچ تحلیل
سپریم کورٹ آج صبح 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے دوران فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے میں ملوث افراد کے ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے خلاف چار درخواستوں کی سماعت شروع کی۔
چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے وکلاء کو دیکھتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کچھ تحفظات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ہمیں خوشی کا اظہار تو کرلینے دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ خوشی کا اظہار باہر جاکر کرلیجیئے گا ، یہ کوئی سیاسی فورم نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بھی ہے۔ اس قانون کو بل کی سطح پر روک دیا گیا ، اس قانون کے مطابق اس بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ کے ذریعے ہونی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ کل شام مجھے کاز لسٹ دیکھ کر حیرت ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دینے کے بعد خود کو بینچ سے الگ کرلیا جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود نے قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات کو اپناتے ہوئے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے تعجب ہوا کہ ایک سرکلر جاری کرکے آرڈر کو نظرانداز کرنے کا کہا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میں نے 8 اپریل 2023 کو ایک نوٹ لکھا تھا ، یہ نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ، 16 مئی کو مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا میں چیمبر ہی کروں گا؟ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں چیمبر ورک پر کیوں گیا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بینچ کیسے تشکیل دیا گیا۔ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر پر فیصلہ جاری نہیں ہوتا ، بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ بینچ سے اٹھ رہا ہوں مگر سماعت سے انکار نہیں کررہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے بینچ پر اعتراضات اٹھائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ سمجھ سکتے ہیں۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں فیصلہ ماننے سے انکار نہیں کر رہا، طریقہ کار کی بات کر رہا ہوں۔
جسٹس طارق مسعود نے وکیل لطیف کھوکھو سے استفسار کیاکہ "انہوں نے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کا رخ کیوں کیا ، آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر ابھی تک فیصلہ نہیں سنایا گیا کیونکہ اٹارنی جنرل نے وقت مانگا تھا۔
چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنے حلف کے مطابق کیا۔
فوجی ٹرائل کے خلاف چار درخواستیں
فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف 4 درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ، سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ان میں سے کسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ایڈووکیٹ حامد خان، ایڈووکیٹ اعتزاز احسن، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور سابق چیف جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ جیسی اہم شخصیات نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں۔