سپریم کورٹ نے عمران خان کی 9 مئی کی گرفتاری کو ‘غیر قانونی’ قرار دے دیا، تفصیلی فیصلہ

عدالت عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ عمران خان کی عدالتی احاطے سے گرفتاری نے عدالتی ریلیف کا راستہ روکنے کے برابر ہے۔ جس طرح سے گرفتاری عمل میں لائی گئی، اس سے ہائی کورٹ کا وقار کم ہوا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی 9 مئی کو عدالت کے احاطے سے گرفتاری کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جس طرح سے پی ٹی آئی کے سربراہ کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اس سے عدالت کے احترام اور وقار میں کمی آئی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعہ کی رات کو 9 مئی کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے پیچھے وجوہات کی وضاحت کی ہے۔

سابق وزیر اعظم کو 9 مئی کو نیم فوجی دستوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کے احاطے سے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے ، سول اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے اور متعدد عمارتوں کو تاریخی نوادرات کو یا تو آگ لگا دی گئی یا پھر لوٹ لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت کا زراعت کی ترقی کےلیے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم بنانے کا فیصلہ

پاکستان میں حالیہ مون سون کی بارشیں 50 سے زائد زندگیاں لے گئیں

عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اسی دن معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد کے آئی جی پی اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا۔ بعد ازاں عدالت نے ڈی جی نیب اور قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معزول وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کو "قانونی” قرار دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اور فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔

11 مئی کو چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے خان کی درخواست پر سماعت کی اور نیب کو ہدایت کی کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کو "غیر قانونی” قرار دیا اور حکام دیا کہ انہیں "فوری طور پر” رہا کیا جائے۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس بھیج دیا اور انہیں اگلے روز تک اسلام آباد ہائی کورٹ آئی ایچ سی) کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا، اِسی عدالت نے ان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا تھا، ساتھ ہی عدالت اس بات کو بھی مقدم رکھا تھا کہ کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ کسی شخص کو احاطہ عدالت سے گرفتار نہیں کرسکتا۔

تفصیلی فیصلہ

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ 11 مئی 2023 کو جاری کیا تھا۔ عدالت نے تمام ماہر وکلاء کے سامنے معاملے کو رکھا تھا اور دلائل طلب کیے تھے۔ نیب کی جانب سے جاری وارنٹ گرفتاری کی تعمیل ہائی کورٹ کے احاطے میں کی گئی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری 22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں کے تقدس اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، لوگ محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی ماحول میں خلل آنے سے انصاف کی فراہمی متاثر ہوتی ہے، آئین میں توہین عدالت کا ذکر ہے تاکہ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی تک عوام کی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

بائیو میٹرک روم کے دروازے، کھڑکیاں اور شیشے توڑ کر گرفتاری عدالتی وقار اور احترام کی خلاف ورزی ہے۔

تفصیلی فیصلے میں باز محمد کاکڑ کے فیصلے کی مثال دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ باز محمد کاکڑ کیس میں عدالت عظمیٰ نے اصول طے کیا تھے کہ انصاف کی فراہمی میں خلل نہیں ڈالا جا سکتا۔ ہائی کورٹ کے بائیو میٹرک کمرے کے دروازے، کھڑکیاں اور شیشے توڑ کر گرفتاری عمل میں لائی گئی جو کسی بھی قابل برداشت نہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اگر گرفتاری کے دوران وکلا، پولیس اہلکار اور ہائیکورٹ کا عملہ زخمی ہوا تو یہ توہین عدالت کے مترادف ہے، اس لیے سپریم کورٹ نے 11 مئی کو درخواست گزار کی گرفتاری کو کالعدم قرار دیتی ہے۔

اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا کہ انصاف کے حصول کے لیے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کے اصولوں کو لاگو کرنے کا مقصد مجرمانہ ٹرائلز میں غیر قانونی عوامل کو روکنا ہے۔ ان اصولوں کا اطلاق ضمانت کے مقدمات پر بھی ہوتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے تحریری فیصلے کے مطابق انصاف تک رسائی بنیادی حق ہے، مستقبل میں تفتیشی ادارے اور پولیس حکام عدالتی احترام اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے سے گریز کریں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کے حکم پر چیئرمین پی ٹی آئی کو ساڑھے 4 بجے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ ایسا کرنے کا حکم دیا اور عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 9 مئی کے افسوسناک واقعات پر بیان دینے کے لیے روسٹرم پر پیش ہونے کی اجازت دی۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی گرفتاری کے بعد پیش آنے والے واقعات سے لاعلمی کا اظہار کیا، عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں؟ انہوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے اپنے پیروکاروں کو کبھی تشدد پر اکسایا نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو پولیس کلیئرنس کے بعد پولیس گیسٹ ہاؤس میں نامزد افراد سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔

متعلقہ تحاریر