تحریک انصاف کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نئی پریشانی استحکام پاکستان پارٹی

نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے نواز شریف سے دبئی میں ہونے والی ملاقات میں سیٹ ایڈجسمنٹ سے صاف انکار کردیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے استحکام پاکستان پارٹی کی صورت میں تیسرا گروپ کھڑا کرکے پیپلز پارٹی سے زیادہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے نئی مشکل کھڑی کردی ہے۔ آنے والے عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسمنٹ کا معاملہ بھی کھڈے لائن لگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے (ن) لیگ کے ساتھ  پنجاب میں ہاتھ کردیا ہے ، اور نواز شریف والی پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے پی ٹی آئی کے بعد آئی پی پی کو کھڑا کردیا ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی کے قیام سے پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک نیا سیاسی حریف میدان میں آگیا ہے۔

نیوز 360 کے ذرائع نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والے ملاقات کے حوالے سے جہاں بہت ساری مثبت باتیں بتائیں ہیں ، وہیں ذرائع نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ آصف علی زرداری نے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ سے انکار کردیا ہے، اور انتخابات میں سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

استحکام پاکستان پارٹی نے عقاب کو انتخابی نشان کے طور پر حتمی شکل دے دی

چیئرمین تحریک انصاف نے پیر کے روز تک اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کردیا

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والے ٹکٹ دیئے تھے لیکن وہ انتخابات میں ہار گئے تھے۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسمنٹ نہیں ہوسکتی۔

سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 75 سالوں سے پاکستان میں پارٹیاں پیدا کرتی اور ختم کرتی آرہی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں استحکام پاکستان پارٹی کا قیام بھی کچھ ایسی صورتحال کی چغلی کھا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ساری سیاسی انجینیئرنگ مسلم لیگ (ن) کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کی ہے۔ کیونکہ اب طاقتور حلقے پی ٹی آئی کو تقریباً ختم کرچکے ہیں ، مگر اسے مسلم لیگ ن کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جو پیدا کردی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی پی پی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے تندوتیز بیانات اس بات کی غماضی کررہے ہیں کہ انہیں اندر کھاتے طاقتور حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

متعلقہ تحاریر