پی ڈی ایم اور حکومت کے درمیان کیا ہونے والا ہے؟

اگر حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کا اتحاد اسلام آباد کی طرف روانہ ہوتا ہے تو ایک غیرمتوقع صورتحال پیش آسکتی ہے

پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔

جمعرات کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سے جاتی امراء میں ملاقات کی۔ دونوں جماعتوں نے حکومت کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی سر سے گزر گیا ہے، اب حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

بلاول بھٹو کے مطابق 31 دسمبر تک پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کے استعفے ان کی جیب میں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور نداکھوڑو سمیت کئی اراکین اسمبلی نے استعفے پارٹی کو بھیج دیئے ہیں۔

ایک طرف اپوزیشن استعفے کی بات کی کر رہی ہے، تو دوسری جانب انتخابات بھی کروانا چاہ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ کے 3 حلقوں میں انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے خط میں موقف اختیار کیا کہ سانگھڑ، عمرکوٹ اور ملیر میں اراکین کے انتقال ہوچکے ہیں جن کی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہونے چاہئیں۔

حکومت نے بھی تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے اقدامات اٹھانے شروع کردیئے ہیں۔ اپوزیشن کو جلسے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔  شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنادیا گیا ہے جو شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے۔

اگر گیارہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اسلام آباد کی طرف روانہ ہوتا ہے تو ایک غیرمتوقع صورتحال سامنے آسکتی ہے۔ مظاہرین اور انتظامیہ جھڑپوں اور خلل کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم کے استعفے اور مجبوریاں

دیکھا جائے تو پاکستان میں حکومت مخالف دھرنوں کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے۔ صرف 2007ء میں وکلاء مارچ ہوئی تھی جس کے ذریعے مقاصد کا حصول ممکن ہوا تھا۔ ورنہ وفاقی دارالحکومت میں آج تک ہونے والے تمام دھرنے ناکام رہے ہیں۔

کیا اپوزیشن اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ یا کچھ دن اسلام آباد میں قیام کے بعد اسے منہ چھپانے کی جگہ تلاش کرنی پڑے گی؟ یا پھر مذاکرات کی میز پر آجائے گی؟

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار امتیاز گل نے نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘اپوزیشن کے مرضی ہے کہ مذاکرات کی گنجائش نکالے یا نہیں۔ اپوزیشن نے صرف پی ٹی آئی کی مخالفت کے لیے کرونا ایس او پیز کو داؤ پر لگایا ہوا ہے جو ان کی اپنی صوابدید ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم نے واضح کیا ہوا ہے کہ وہ مقدمات یا احتساب کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہی چیز اپوزیشن اور حکومت کے درمیان رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ کیسز میں نرمی کی جائے۔ کئی کیسز میں زیادتی کا تاثر ہے کہ غیرضروری طور پر نیب کو استعمال کیا جارہا ہے’۔

امتیاز گل نے کہا کہ ‘حکومت کو معاملے پر لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا تاکہ اپوزیشن کو مطمئن کیا جاسکے اور کوئی راستہ نکالا جاسکے’۔

سینئر تجزیہ کے مطابق ‘اس تمام صورتحال کا سینیٹ انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر اپوزیشن استعفے دے دیتی ہے تو ضمنی انتخابات کروادیئے جائیں گے’۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم کا اجلاس استعفے جمع کرانے کے فیصلے پر ختم

متعلقہ تحاریر