اخبارات یا سائن بورڈز؟

اخبارات میں اہم خبروں کے لیے مختص کی گئی جگہ اشتہارات کو دی جانے لگی۔

پاکستان میں اخبارات ‘سائن بورڈز’ کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ ملک کے بڑے اخبارات میں اہم خبروں کی جگہ اشتہارات کو دی جانے لگی ہے۔

صحافت کے چند اصول دنیا بھر میں عام ہیں جن میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ خبروں کو ان کی اہمیت کی مناسبت سے جگہ دی جائے۔ خواہ وہ اخبار ہو، نیوز ویب سائٹ ہو یا کوئی جریدہ، خبروں کی جگہ، اس کی لمبائی اور چوڑائی ادارتی پالیسی کو واضح کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نیوز چینل کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خبروں کو ان کی اہمیت کی بنیاد پر  نشر کرے۔

  یہ کوئی علاقائی نہیں بلکہ ملک گیر شائع ہونے والے معروف اخبارات ہیں جنہوں نے قارئین تک خبروں سے زیادہ اشتہار پہنچانے کو ترجیح دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیاسی رنگ میں رنگی صحافت

اخبارات میں صفحہ اول یا مین پیج پر شہ سرخی کی جگہ اشتہار، اُس کے اوپر اور نیچے بھی اشتہارات دراصل صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ایک قاری جو خبریں پڑھنے کے لیے اخبار خریدتا ہے اُسے یہ ادارے پیسوں کے عوض اشتہارات بیچ رہے ہیں جن کے پیسے وہ پہلے ہی اپنی جیبوں میں ڈال چکے ہیں۔

یہ تصاویر پیر کے مختلف اخبارات کی ہیں۔ اتوار کے روز صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا جلسہ تھا۔ بظاہر حکومت نے خود اور اپنے حمایتی اداروں یا افراد سے یہ اشتہار اِن اخبارات میں اِس لیے لگوائے ہیں تاکہ پی ڈی ایم کے جلسے کی خبروں کے لیے جگہ ہی نا رہے۔ غالباً اِس میں قدرے کامیابی بھی ہوئی ہو لیکن کیا یہ طریقہ کار درست ہے؟ البتہ حکومت حامی اشتہارات لگوانے میں خود حکومت کا ہاتھ ہے یا نہیں اِس بات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن پاکستان کے تمام اخبارات کے صفحہ اول ایک خاص دن اشتہارات سے بھر جانا یقیناً کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مختلف اخبارات کے دفاتر میں آج بھی ملازمین کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ ملازمین احتجاج کر رہے ہیں اور صحافی انجمنیں اُن کے حق میں بیانات دے دے کر تھک چکی ہیں۔ اخبارات سے آئے دن ملازمین کی برطرفیوں اور تنخواہوں میں کٹوتی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

دوسری جانب اخبارات پورے پورے صفحہ اول اشتہارات سے رنگ رہے ہیں۔ اور اُن سے حاصل ہونے والی رقم کہاں جارہی ہے اِس کا علم صرف اخبارای مالکان کو ہی ہے۔

پاکستان میں پورے صفحے کے اشتہارات لگا کر نا صرف یہ اخبارات صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کر تے ہیں بلکہ صارفین اور قارعین کا بھی استحصال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں اخبارات اِس طرح اشتہارات سے رنگے جاتے ہیں وہاں یہ اخبارات مفت دستیاب ہوتے ہیں۔ لندن، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں صبح اور شام کے کئی اخبارات اشتہارات سے حاصل ہونے والی رقم سے چلائے جاتے ہیں۔ مگر وہ اخبارات ٹیوبز اور انڈر گراؤنڈ ٹرانسپورٹ کے اسٹیشنز کے باہر مفت دیئے جاتے ہیں، اُن کی رقم نہیں وصول کی جاتی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ صارف خبر پڑھنے کے لیے جو اخبار خرید رہا ہے اُسے اپنے پیسے کے عوض اشتہار پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

اگر کوئی اخبار اپنے آپ کو صحافت کا علمبردار تصور کرتا ہے تو اُسے اشتہارات کے بجائے خبروں کو ترجیج دینی چاہیے اور خاص طور پر جب یہ واضح ہو کہ اشتہار خاص دن ممکنہ طور پر خاص طرح کی خبروں کو چھپانے کے لیے دیئے جا رہے ہیں۔ اِس معاملے میں متعلقہ نگراں ادارے کی کارکردگی پر بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ اُس نے کیوں اِس واقع کا نوٹس نہیں لیا؟

سیاسی اشتہارات سیاسی خبروں کو چھپانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اور اخباری مالکان اُن کی قیمت بھی اُسی طرح وصول کر رہے ہوں گے۔ لیکن صارفین اور قارعین کے استحصال کا ذمہ دار کون ہے؟ اور ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کارروائی کون کرے گا؟ اور کارروائی کرنے کی صورت میں آزادی اظہار رائے پر سلب ہوگی یا نہیں؟

اِن سوالات کے جواب گزشتہ حکومتوں کی طرح اِس حکومت کے سامنے بھی رکھے جاتے رہیں گے جن کے جوابات تاحال نہیں مل سکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سینیئر صحافیوں کی خبر یا انا کا مسئلہ؟

متعلقہ تحاریر