زچگی کی معلومات میں لپٹا روغنی پراٹھا

گلاسی پیپرز پر پرنٹڈ بروشرز کو ٹارگیٹ آڈینس تک پتہ نہیں پہچایا گیا یا نہیں مگر اسے چائے خانے تک ضرور پہنچایا گیا ہے۔

ماجد صدیقی

ریاست پاکستان میں تعلیم،صحت، خاندانی منصوبہ بندی، فلاح بھبود اور انسانی زندگی کی ترتیب ترجیحاتی فہرست میں کہاں اسٹینڈ کرتے ہیں، اس کا اندازہ تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بھاری بھرکم بجیٹ دستاویزات دیکھ کرہی اندازہ ہوجاتا ہے۔ جہاں آپ کو ان موضوعات پر سرکاروں کی جانب سے کی جانی والی بجٹ الوکیشن کسی کونے کھدرے میں پڑی ملتی ہے اور جو اس معاشرے کا منہ چڑانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ تاہم ان معمولی رقوم کے فوائد بھی عوام تک ایمانداری سے پہنچانا غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ ان تمام موضوعات پر بجٹس میں جتنی بھی رقوم رکھی جاتی ہیں۔ انکا آدھا یا شاید آدھے سے بھی زیادہ حصہ ملازمین کی لمبی چوڑی لسٹ کی تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے اور باقی بچی ہوئی رقم کو مربوط منصوہہ بندی کے تحت بڑی مہارت سے خرد برد کیا جانا ہی الٹیمیٹ ٹارگیٹ ہوتا ہے۔

زیرنظربروشرحکومت سندہ کے محکمہ صحت کے ایک منصوبے کا ہے، جس کا انگریزی ٹائیٹل ہے”ںیوٹریشن سپورٹ پروگرام سندہ”۔ اتنے بھاری بھرکم ٹائیٹل والے پروجیکٹ کا انجام یہ ہے کہ آج صبح جب آفیس بوائے کو ناشتہ لانے کے لئے بھیجا تو اس بروشر میں پختون بھائی کے ہاتھ کا بنا ہوا پراٹھا لپٹ کے آیا۔ اندازہ لگائیے عوام کے نام پر اربوں کے منصوبہ جات کا حشر یہ ہے کہ کروڑوں روپوں کی لاگت سے گلاسی پیپرز پر پرنٹڈ بروشرز کو ٹارگیٹ آڈینس تک پتہ نہیں پہچایا گیا یا نہیں مگر اسے چائے خانے تک ضرور پہنچایا گیا ہے۔ چلیں کسی بھانے سے تو کسی ہاتھ میں تو آیا اور کسی نظر سے تو گذرا۔

اس کارراوئی کے بعد اس منصوبے "ںیوٹریشن سپورٹ پروگرام سندہ” کی ویب سائیٹ وزٹ کی گئی تو پتہ چلا کہ انکے تو لمبے چوڑے منصوبہ جات ہیں۔ بلکل پہلی سطر میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس میگا پروگرام کا مقصد صوبے بھر کے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں اور حاملہ عورتوں کی غذائی ضرورتوں کو بہتر بنانا ہے۔ اس ضمن میں پہلا فوکس غریب سے غریب تر ہے۔ ساتھ ساتھ چھوٹی عمر کی معذور بچیوں، اقلیتوں اور سماجی سطح پر پسماندہ لوگوں کو اس کے فوائد پہنچانے ہیں۔

الفاظ تو کسی مربوط منصوبے کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور لگتا ہے کہ اگر یہ منصوبہ اگلے پانچ برس تک اپنے الفاظ کا ہی پاس رکھتا رہا تب بھی صوبہ سندہ سویڈن، ڈینمارک سے آگے نہیں تو مقابل ضرور کھڑا ہوگا مگر سوال یہ ہے کیا یہ واقعتن اور عملن اس منصوبے کی ان بتائے گئے انسانوں تک رسائی ممکن ہوپائی ہے یا یہ کہ یہ محض اس طرح کی لفاظی ہے، جو کہ این جی اوز کی دنیا سے شروع ہوکر سیاسی جماعتوں سے ہوتی ہوئی ریاستی اداروں کے عوامی اور جمہوری دعووں پر ختم ہوجاتی ہیں۔

ویب سائیٹ کے مطابق اس منصوبے کے تحت تعلیم، صحت، خاندانی منصوبہ بندی، سوشل ویلفئر، زراعت، لائیواسٹاک اور فشریز کے سیکٹرز کو ملاکر ایک ایسی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کیا گیا، جس کو عملی شکل ملتے ہی صوبے کی دگرگوں صورتحال چمک اٹھے گی۔

اس منصوبے کے تحت ایکسلیریٹیڈ ایکشن پلان (آپ) کے ذریعے صوبہ سندہ میں غذائی کمی کو سن دوھزار اکیس تک 48 فیصد سے 30 فیصد تک اور دوھزار چھبیس تک 15 فیصد تک لانا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کہاں تک پہنچا ہے اور کتنا سچ پر مبنی ہے مگر یقینن انگریزی زبان میں شایع شدہ رپورٹس میں کشیدہ کاری کرکے ایک ہی وقت میں سرکار اور ڈونرز کی فائلوں کے پیٹ بھرے گئے ہیں جو بات مجھے معلوم ہے کہ میں کراچی سے لیکر کشمور تک اور کینجھر سے لیکر کارونجھر تک کئی علاقوں میں اکثر جاتا رہتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ وہاں ایک ہی چیز زیادتی میں پائی جاتی ہے اور وہ غربت ہے۔خاص طور پر صوبے بھر کے دیہی علاقے غربت کی  قید میں مبحوس زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ان کی زندگی کے حالات اور اداروں کی ویب سائیٹ پر گلاسی انگش میں لکھے گئے اغراض مقاصد اور منصوبہ جات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زبان خرچ اور عمل میں ہوتا ہے۔

بظاہر لگ یہی رہا ہے کہ صوبہ بھر کے بقیہ اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی نام بڑا دیھ ویران کی مصداق ہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ادارے کا بجٹ ایئر کنڈیشنڈ دفاتر، مہنگی گاڑیوں اور گلاسی پیپرز پر چار رنگوں میں چھپے بروشرز پر جانفشانی سے خرچ ہورہا مگر یہ بجٹ حالات کے مارے انسانوں پر کتنا خرچ ہورہا ہے اس کا نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس وقت بھی صوبے بھر کے پانچ سال کی عمر تک 48 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جس میں سے 35 فیصد انتہائی بری صورتحال سے دوچار ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

متعلقہ تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے