پی ٹی اے کا غیر مطلوبہ ایس ایم ایس کے خلاف اقدام
پی ٹی اے کی جانب سے صارفین کو موبائل پر ڈی این سی آر سروس کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی مارکیٹنگ نے شہریوں کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے دیر آئد درست آئد کی کہاوت پر عمل کرلیا اور اشتہارات بلاک کرانے کی 11 سال پرانی سروس ’ڈو ناٹ کال رجسٹر‘ (ڈی این سی آر) فعال کردی گئی۔ صارفین کی جانب سے اس اقدام کو سراہا جارہا ہے۔
موبائل فون پر غیر مطلوبہ اشتہارات سے اکثر صارفین عاجز آتے ہیں۔ بعض اوقات برانڈز کی جانب سے میسجز کے علاوہ کالز بھی موصول ہوتی ہیں جو پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) میدان میں آگئی۔ ٹیلی مارکیٹنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے 2009 میں متعارف کرائی جانے والی سروس اب فعال ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
📱✉️ٹیلی مارکیٹنگ کالز اور ایس ایم ایس بلاک کریں:
اپنا موبائل نمبر🔢”ڈو ناٹ کال رجسٹر(ڈی این سی آر)”میں درج کریں۔’reg‘ ٹائپ کریں اور 3627 پر ایس ایم ایس کریں۔
شکایات کاازالہ نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سروس فراہم کنندہ سے رابطہ کریں۔ pic.twitter.com/UGnfjJKPub— PTA (@PTAofficialpk) January 28, 2021
صارفین کو ڈی این سی آر سروس کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ جس کے تحت ان چاہے میسجز اور کالز بلاک کرائی جاسکتی ہیں۔ ڈی این سی آر پر نمبر ڈال کر صارفین پی ٹی اے کو بتاسکتے ہیں کہ ان کا نمبر اشتہارات کے لیے رجسٹر نہ کیا جائے۔ اس سروس سے فائدہ اٹھانے کے لیے صارفین کو میسج میں آر ای جی لکھ کر 3627 پر بھیجنا ہوگا۔ جس کے بعد تشہیری پیغامات اور کالز موصول ہونا بند ہو جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیے
اداکاروں اور کھلاڑیوں کی اے آر وائی لاگونا کی منفرد تشہیر
صارفین کا نمبر برانڈز تک کیسے پہنچتا ہے؟
صارفین اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہوں نے جس برانڈ کو اپنا نمبر نہیں دیا ان تک نمبر کیسے پہنچا؟ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ مختلف برانڈز کی مارکینٹنگ کمپنیاں ایک ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے جب صارفین کسی ایک برانڈ کو اپنا نمبر رجسٹر کراتے ہیں تو وہ دیگر برانڈز کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔
چند صارفین اس معاملے میں بینک پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اکاؤنٹ کھلواتے ہوئے جو معلومات بینک کو فراہم کی جاتی ہیں۔ بینک انتظامیہ اسے برانڈز تک منتقل کرتی ہے۔ صارفین کی جانب سے عائد کردہ اس الزام کی صداقت پر سوالیہ نشان موجود ہے۔