پپا کو کبھی جلدی آتے نہیں دیکھا

فیاض الحسن تو ایک ادارے میں آفس بوائے تھے لیکن کئی اداروں میں اسی صورتحال کا سامنا صحافیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ کئی ملک گیر شہرت رکھنے والے صحافی جب دنیا سے رخصت ہوئے تو معلوم ہوا کہ چند دن قبل ہی اُنہیں ملازمت سے ”جواب‘‘ ملا تھا۔

پاکستان میں میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی عادتیں اور بادشاہوں کے اطوار میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جسے چاہا نواز دیا جسے نہیں چاہا تو وہ ایڑھیاں بھی رگڑ لے لیکن رحم کی کوئی گنجائش نہیں۔

محمد فیاض الحسن پاکستان میں زرائع ابلاغ کے سب سے بڑے ادارے سے وابسطہ تھے۔ وہاں 25 برس کی ملازمت کے بعد جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کے صاحبزادے فیضان الحسن کے مطابق والد کی تنخواہ فقط ساڑھے 15 ہزار روپے تھی جو کہ کئی گھنٹے کے اوور ٹائم کے بعد 20 ہزار روپے ماہانہ بن جاتی تھی۔

 ”ہم نے کبھی پپا کو جلدی گھر آتے نہیں دیکھا۔ وہ صبح 8 بجے گھر سے نکل جاتے تھے اور واپس کبھی 8 ، 9 ،10 کبھی کبھار  11 بجے تک گھر آتے تھے اوور ٹائم کرکے۔ بس صرف اتوار کا دن ہوتا تھا جب ہمیں کچھ پپا جیسا وقت دیتے تھے۔‘‘ یہ الفاظ فیضان الحسن نے بڑے رک رک کر اور اپنی رندھی ہوئی آواز کو قابو میں کرنے کی کوشش میں ادا کیے۔

فیضان کی عمر 18 برس ہے اِس عمر سے ہی اُنہوں نے اپنے والد کا بوجھ کم کرنے اور اُن کا ہاتھ بٹانے کی اپنی سی کوشش کی اور ایک ڈینٹل کلینک پر کام کرنے لگے لیکن جب فیاض الحسن زیادہ بیمار ہوئے تو وہ ملازمت بھی چھوڑ دی اور صرف ”پپا‘‘ کی خدمت میں جٹ گئے۔

اپنے والد کے بارے میں کیے جانے والے میرے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کئی بار وہ رکے اور کوشش کی کہ ایک مرد کے سامنے ایک لڑکا اپنا دکھ چھپا سکے لیکن اپنی نا چھپ پانے والی غربت اور بے بسی کی طرح وہ اپنی نم آنکھیں بھی نا چھپا سکے۔

کیا وہ اپنے والد کی جگہ کام کرنا پسند کریں گے؟ اِس سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ”اخبار میں پیسے نہیں ملتے اگر ملتے بھی ہیں تو کئی ماہ کے بعد اگر کسی اور شعبے میں ہوجائے تو اچھا ہے مجھے گھر تو چلانا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے

مالکان کے حق میں متحد پی بی اے ملازمین کے معاملے میں منقسم کیوں؟

کیا والد کی 25 برس کی ملازمت کے بعد جب وہ بیمار ہوئے تو کیا اُن کے ادارے نے کوئی مدد کی؟ اِس کے جواب میں فیضان الحسن نے اپنی شکوہ بھرے لہجے میں میں کہا ”ادارے نے علاج نہیں کرایا تھا بس کچھ پیسے دیئے تھے لیکن اُس کے بعد اُن کے ساتھ کام کرنے والے دوستوں نے یا دفتر والوں نے مل ملا کر کچھ کر دیا تھا علاج کے لیے لیکن جو ایک ادارے کو کرنا چاہیے وہ کچھ نہیں کیا تھا۔‘‘

اِس کے علاوہ فیضان نے بتایا کہ پپا کے انتقال کے بعد اُن کی تدفین کے لیے دفتر نے کچھ پیسے دیے تھے لیکن وہ سب خرچ ہوگئے۔
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انجینئر کا بچہ انجینئر بننا چاہتا ہے اور ڈاکٹر کا ڈاکٹر اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی ہوتا ہے لیکن جب فیضان سے پوچھا کہ اگر اُن کو پسند کی ملازمت کرنے کا موقع ملے تو وہ کیا کرنا پسند کریں گے؟ جواب ملا ”ڈینٹل کی لائن مجھے اچھی لگتی ہے۔ ڈاکٹر تو نہیں بن سکا لیکن اسسٹنٹ بن سکتا ہوں۔‘‘

یہ پاکستان میں زرائع ابلاغ کے سب سے بڑے ادارے میں کام کرنے والے آفس بوائے کے خاندان کا حال ہے جہاں وہ اپنی زندگی میں روز لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرنے والوں کو دیکھتے اور ہزاروں خرچ کرنے والوں سے ملتے تھے۔

فیاض الحسن کے بارے میں اُن کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی کارکن کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔

جب حکومت ملک میں کم از کم تنخواہ مقرر کرتی ہے تو یہی زرائع ابلاغ کے ادارے حکومت کے فیصلے کی ہنسی اڑانے اور تنقیدی پروگراموں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع کردیتے ہیں لیکن وہیں اُن کے اپنے دفاتر میں کوئی فیاض الحسن ساڑھے 15 ہزار روپے مہانہ کو 20 ہزار روپے مہانہ تک لے جانے کے لیے کئی کئی گھنٹے اوور ٹائم کر رہا ہوتا ہے۔

شاید ایسے فیاض الحسنوں کو معلوم نا ہو کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے خاندان کو ادارے کی جانب سے صرف اتنے پیسے ترس کھا کر دیے جائیں گے جن سے صرف تدفین ممکن ہو سکے گی۔

زرائع ابلاغ میں جب کسی مالک پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے تو اُس کے ملازم اِس کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن جب یہی ملازم حالات کے تھپیڑوں کا شکار ہوجائیں تو مالکان ترس، رحم، مہربانی، دریا دلی، امداد، خیال رکھنا جیسے الفاظ سننے کے بعد کبھی کبھار کچھ رقم دے کر ہمیشہ کی نیک نامی کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
فیاض الحسن تو ایک ادارے میں آفس بوائے تھے لیکن کئی اداروں میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا صحافیوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ کئی ملک گیر شہرت رکھنے والے صحافی جب دنیا سے رخصت ہوئے تو معلوم ہوا کہ چند دن قبل ہی اُنہیں ملازمت سے ”جواب‘‘ ملا تھا۔

صحافتی تنظیموں کے عہدیدار اکثر اداروں میں ایسی صورتحال میں مالکان کی ڈھال کا کردار ادا کررہے ہیں۔ میڈیا مالکان جو آپس میں لاکھ مخاصمت کے باوجود براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم پر متحد ہو جاتے ہیں اِس فارمولے پر کار بند ہیں کہ ایک صحافی لیڈر یا کارکنان کی انجمن کے رہنما کو زیادہ اور وقت پر تنخواہ دے کر کئی فیاض الحسن کی تنخواہ بچالی جائے۔

متعلقہ تحاریر