علامہ اقبال کے مجسمے پر سیاست مالیوں کی محبت پر حاوی ہوگئی

15 روز قبل سوشل میڈیا پر کیفے کنولی کی ویڈیو زیرگردش تھی جبکہ 15 روز بعد علامہ اقبال کا مجسمہ زیر بحث ہے۔

پاکستان میں کسی متنازع معاملے کے سامنے آنے کے بعد عوام کا ردعمل معاشرے کی سوچ کی اور ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ حال ہی میں غیر پیشہ ور مجسمہ ساز مالیوں کے شب و روز کی محنت سے بنائے گئے علامہ اقبال کے مجسمے کا مذاق اُڑانا اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ معاشرے کو خیالات بدلنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے گلشن اقبال پارک میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے ایک مجسمے کا سوشل میڈیا پر مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اس مجسمے کو عوام کی داد تو وصول نہ ہوسکی البتہ کئی سوشل میڈیا صارفین اس مجسمے پر تنقید کرنے میں آگے نظر آرہے ہیں۔

علامہ اقبال کی صورت کا یہ شاہکار کوئی پیشہ ور مجسمہ سازوں نے تخلیق نہیں کیا بلکہ اسے پارک کے مالیوں نے دن رات کی محنت کے بعد بنایا ہے جو کہ ان کی مفکرِ پاکستان اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال سے عقیدت کا مظہر ہے۔

مالیوں کی اس کوشش پر عوام نے اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہدفِ تنقید بنالیا۔ سوشل میڈیا پر بحث چھڑی کہ مجسمہ علامہ اقبال سے شبیہ نہیں رکھتا۔ مالیوں نے اس مجسمے کو کباڑ کا مختلف سامان اکٹھا کر کے بنایا ہے جس پر بےجا تنقید معاشرے کی تنگ ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اقبال پارک میں نصب شاعر مشرق کے مجسمے کی حقیقت

برطانوی نژاد پاکستانی صحافی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر رواں اور گزشتہ ہفتے زیربحث آنے والے موضوعات کا ذکر کیا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے لکھا کہ گزشتہ ہفتے ٹوئٹر پر کیفے کنولی کی ویڈیو زیرگردش رہی جبکہ رواں ہفتے علامہ اقبال کا مجسمہ زیر بحث ہے۔

اس ٹوئٹ میں انہوں نے بالواسطہ میں معاشرے کی سوچ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تنقید کی قطار سب سے آگے کھڑے رہنے کو فخر سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ تنقید کس شخص پر اور کس وجہ سے کی جارہی ہے۔ کیفے کنولی کی مالکن پر عوام کی تنقید کا رُخ صحیح تھا لیکن اس مجسمے پر ردعمل دے کر سوشل میڈیا صارفین نے مفلوج سوچ کا ثبوت دیا ہے۔

علامہ اقبال کے مجسمے کا یہ شاہکار کسی پیشہ ور مجسمہ ساز سے تخلیق کروایا جاتا تو تنقید بجا تھی لیکن مالیوں کے اس عقیدت کے اظہار پر تنقید زیب نہیں دیتی۔

متعلقہ تحاریر