کشمیر کل اور آج
کشمیریوں نے آزادی کی جدوجہد کا آغاز سن 1931 میں کیا تھا جس کی حمایت مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے بھی کی تھی۔

مقبوضہ کشمیر میں آج سے تقریباً 5 برس قبل 8 جولائی 2016 کو کشمیری رہنما برہان وانی کو شہید کردیا گیا تھا جس کے بعد سے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی جان سی پڑ گئی اور بھر پور مظاہروں کا آغاز ہوا۔
تحریک آزادی کا آغاز
کشمیریوں نے آزادی کی جدوجہد کا آغاز سن 1931 میں کیا تھا جس کی حمایت مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے بھی کی تھی۔ اسی برس 13 جولائی 1931 کو سری نگر کی مرکزی جیل کے باہر پولیس نے مظاہرین پر اندھا دھن گولیاں برسادیں جس کے باعث 17 کشمیری شہید ہوئے تھے۔ اس طرح سن 1931 میں ہی کشمیریوں کی تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔
برہان وانی کی شہادت
جموں و کشمیر میں انڈین افواج کے ہاتھوں شہید کیے جانے والے کشمیری حریت پسند رہنما برہان مظفر وانی ایک ہونہار طالب علم تھے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی خالد وانی پر انڈین افواج کے تشدد کے بعد محض 15 برس کی عمر میں ہتھیار اٹھائے تھے۔
سن 2015 میں برہان وانی کے والد مظفر وانی نے ہندوستان ٹائمز کو دیئے جانے والے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار اس لیے اٹھائے تھے کیونکہ انہوں نے انڈین فوج کو دیگر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی سال مظفر وانی کے بھائی محمد خالد وانی کو انڈین فوج نے ترال کے علاقے میں جعلی مقابلے کے دوران شہید کردیا تھا۔
سن 2015 میں ہی حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو انڈیا کے خلاف مسلح جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دی تھی۔ کشمیری عوام کی نظر میں برہان وانی ایک حریت پسند رہنما تھے حالانکہ انڈین فوج کا دعویٰ تھا کہ وہ کئی پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انڈین فوج نے برہان وانی کی اطلاع دینے والے کو 10 لاکھ روپے بطور انعام دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ برہان وانی کو انڈین فوج نے مبینہ طور پر ایک مقابلے میں شہید کیا تھا جس کی خبر تیزی سے پھیلی اور عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
احتجاج اور مظاہرے
برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور مقبوضہ کشمیر کی قابض انڈین فوج کے سامنے نوجوان ڈٹ کر کھڑے ہوکر کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنے لگے۔
حزب المجاہدین کے کمانڈر کی نمازِ جنازہ پر مظاہرے ہوئے اور سکیورٹی فورسز اور نوجوانوں کے درمیان تصادم ہوا۔ کشمیری نوجوانوں نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا اور انڈین فوج کی مظاہرین کو منتشر کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو انہوں نے مظاہرین پر فائرنگ کر کے کئی افراد کو قتل کردیا۔
یہ بھی پڑھیے
بائیڈن کی ٹیم میں کشمیری خواتین کی شمولیت تبدیلی کی ضامن؟
2 روز کے دوران احتجاج میں 17 سے زائد کشمیری نوجوانوں کو قتل اور 200 زیادہ کو زخمی کردیا گیا تھا۔
کشمیر میں حالیہ دنوں کے دوران ایک مرتبہ پھر مسلح جدوجہد میں تیزی آگئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر کے مسلح حریت پسندوں کی تصاویر سامنے آئی تھیں جس کے بعد انڈین فوج پر حملوں میں اضافہ ہوا اور کئی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی۔
انڈیا کی تحریک آزادی کی آواز دبانے کی کوشش
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انڈیا نے 5 اگست 2019 کو تحریک آزادی کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہوئے قانون میں تبدیلی کی۔ اس کے ساتھ ہی کشمیریوں پر ظلم و ستم کے نئے دور کا آغاز کیا گیا۔
اس دن انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور مکمل لاک ڈاؤن لگاتے ہوئے موبائل نیٹ ورکس بند اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو حذف کر کے کشمیر کو تقسیم کرنے کی کا منصوبہ پیش کیا اور قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔ انڈین صدر نے اس آرٹیکل کے خاتمے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے جس کا نفاذ اکتوبر 2020 میں کردیا گیا۔
آرٹیکل 370 اور 35 اے کا اختتام
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے راجیا سبھا میں بل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ صدر نے اس پر دستخط کردیئے ہیں۔
اس آرٹیکل کو ختم کر کے 2019 کا خصوصی آرٹیکل کا نفاذ کیا گیا جس کے تحت انڈین حکومت مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرانتظام کرنے کے ساتھ وہاں انڈین قوانین نافذ کر سکے۔
مقبوضہ وادی کو مودی سرکار نے 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لداخ کا علاقہ وفاق کے زیر انتظام قرار دیا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔
آرٹیکل 370 کے بارے میں
آرٹیکل 370 میں جموں کو کشمیر کو انڈیا کا آئینی حصہ قرار دیا گیا۔ آرٹیکل کے مطابق کشمیری اپنے لیے قوانین خود بنائیں گے جس پر انڈیا کے قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔
اس آرٹیکل کے مطابق جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت عارضی ہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 370 میں اس کی منسوخی کا طریقہ کار بھی بتایا گیا کہ صدر ایک حکم جاری کر کے اسے ختم کر سکتا ہے لیکن انہیں جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی اجازت درکار ہوگی۔
آرٹیکل 35 اے کے بارے میں
آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد اب انڈیا کے رہائشی مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید کر مستقل طور پر رہائش پذیر ہوسکیں گے۔
کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ بڑی تعداد میں ہندو مقبوضہ کشمیر آ کر یہاں رہائش اختیار کریں گے۔ اس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں آئیں گی جس سے مقبوضہ کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہوجائے گا۔
نئی امریکی انتظامیہ کشمیر میں تبدیلی کی ضامن
پاکستانی نژاد امریکیوں کے بعد 2 کشمیری نژاد امریکی خواتین سمیرا فضلی اور عائشہ شاہ بھی نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی ٹیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ تقرریاں انڈین حکومت کو ٹف ٹائم تو دیں گی لیکن آنے والا وقت بتادے گا کہ انڈیا اس سے کس قدر متاثر ہوگا۔
ہارورڈ گریجویٹ کشمیری نژاد امریکی خاتون سمیرا فضلی کو نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے۔ جبکہ عائشہ شاہ کو وائٹ ہاؤس ڈیجیٹل اسٹریٹجی ٹیم کی پارٹنرشپ منیجر کی حیثیت سے جو بائیڈن کی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
خود مختار کشمیر کی حامی تنظیم مزید 2 دھڑوں میں تقسیم
مقبوضہ وادی سے تعلق رکھنے والی یہ 2 خواتین کشمیریوں کی آواز وائٹ ہاؤس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ اس اقدام سے نہ صرف کشمریوں کا موقف واضح طور پر دنیا کے سامنے اجاگر ہوگا بلکہ انڈیا کے مقبوضہ کشمیر پرغیر قانونی تسلط کی حقیقت بھی عیاں ہونے میں مدد ملے گی۔
کشمیری اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے، وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر
آج 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا ہے کہ اقومِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ پاکستان کے عوام ہماری پشت پر ہیں۔ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ جس مقصد کے لیے لاکھوں قربانیاں دی گئیں اس کا صلہ ضرور ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ مودی سرکار جس طرح کے مظالم ڈھا رہی ہے وہ بےنقاب ہوں گے۔ انڈیا کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ آزادی کا سورج طلوع ہونے میں زیادہ دیر باقی نہیں ہے اور بہت جلد ہم وادی میں آزادی کی خوشیاں منائیں گے۔
مشال ملک کا انڈیا سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ
کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشال ملک نے منگل کے روز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران نے کہا کہ ‘کشمیریوں کی نسل کشی ہورہی ہے اور اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو آپس کے اختلافات کو بھلا کر کشمیر کی آزادی کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
انہوں نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ شملہ معاہدہ فوری طور پر منسوخ کر کے انڈیا کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کیے جائیں۔
یہاں یہ بات قابل فکر ہے کہ اگر ایک عرصے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ چل رہا ہے اور دنیا میں مسائل کا پُرامن حل مذاکرات کی میز پر آ کر ہی نکلتا ہے۔ اگر پاکستان انڈیا سے تعلقات ختم کردے گا تو مذاکرات کیسے ہوں گے اور بغیر مذاکرات کے مسئلہ کشمیر کا حل کیسے نکلے گا؟