ہر احتجاج پر واویلا کرنے والا میڈیا اپنے ملازمین کے احتجاج پر کیوں خاموش؟

میڈیا ہاؤسز میں کم تنخواہ دار طبقے کو نوکری سے برطرف کیے جانے کی روایت عام ہے۔

پاکستان میں نیوز چینلز میں ایک طرف لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے اینکرز کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا جاتا ہے تو دوسری جانب کم تنخواہ والے ملازمین کو ملازمتوں سے اچانک فارغ کردیا جاتا ہے۔ تازہ واقعہ جیو نیوز کے سکیورٹی گارڈ نفیس کے ساتھ پیش آیا جنہیں 26 سال کی ملازمت کا صلہ برطرفی کی صورت میں ملا ہے۔

پاکستان کی میڈیا انڈسٹری ان دنوں زوال پزیر ہے۔ خاص طور پر نیوز چینلز نے تو کم تنخواہ دار طبقے کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ زندگی کے کئی اہم سال نیوز چینلز کو دینے کے باوجود بھی ملازمین کے سروں پر کسی بھی وقت ملازمت ختم ہونے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ گزشتہ 2 سے 3 برس کے دوران متعدد کارکنان اسی خوف کے باعث دل کے عارضے میں مبتلا ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھے۔

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس (جیونیوز) کی جانب سے لاکھوں روپے تنخواہ کی خالی آسامیوں پر بھرتی کے لیے اشتہارات دیئے جارہے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ حسن نثار جیسے صنفی منافرت پھیلانے والے تجزیہ کاروں کو بھی جیو نیوز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جارہا ہے تاکہ چینل کی ریٹنگ میں اضافہ ہو۔ ایسے اینکرز ٹی وی پر ایک گھنٹے کے غیر معیاری اور غیر شائستہ گفتگو سے بھرپور پروگرام کے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔ حسن نثار نے کچھ عرصہ قبل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں تجزیہ کار ریما عمر کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اب دوبارہ اسی پروگرام میں حسن نثار نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

معروف اینکرز کو ماہانہ لاکھوں لاکھ روپے تنخواہ دینے والے ادارے جیو نیوز نے اپنے 26 سال پرانے سکیورٹی گارڈ کو برطرفی کا تحفہ دے دیا ہے۔ نفیس کو چند دنوں کے نوٹس پر نوکری سے فارغ کردیا گیا ہے۔ نفیس ایک ایسے ملازم ہیں جو 1994 سے جنگ گروپ سے وابستہ رہے اور انہیں 2021 میں اچانک گھر جانے کا کہہ دیا گیا ہے۔

المیہ تو یہ ہے کہ اتنے برس کی وفاداری کے باوجود جیو کے سکیورٹی گارڈ کی تنخواہ 20 ہزار روپے بھی نہیں ہے۔

حالیہ دور میں میڈیا ہاؤسز کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ چینلز پر سرکاری ملازمین کے احتجاج کو تو براہ راست نشر کیا جاتا ہے لیکن جب ان ہی چینلز کے خلاف خود ان کے ملازمین دفتر کے باہر مظاہرہ کرتے ہیں تو انہیں نشر کیا جانا تو دور کی بات بلکہ انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

معروف اینکر پرسن مبشر لقمان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں لکھا کہ تمام نیوز چینلز سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن ان ہی چینلز نے مظاہروں کی کوریج کرنے والوں کی تنخواہیں کئی سالوں سے نہیں بڑھائیں بلکہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ کٹوتی کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عائشہ جہانزیب نے جیو اور خبر ناک کیوں چھوڑا؟

مہنگائی کے اس مشکل ترین دور میں نیوز چینلز کے ملازمین کو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خوف طاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کارکنان کئی مہینوں تک تنخواہ کی راہ تکنے پر مجبور ہیں لیکن احتجاج کرنے یا قلم چھوڑ ہڑتال کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔

لیکن اگر یہی چند ہزار روپے مہانہ بطور تنخواہ وصول کرنے والے ملازمین اگر اپنی ملازمت ختم ہوجانے کے بعد احتجاج کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے  کہ ان کی آواز اِس قابل بھی نہیں کہ ایک چینل کا مخالف چینل ہی ان کی آواز عوام کو سنا دے۔ ایسی صورتحال میں ٹی وی چینلز کی آپس میں لاکھ مسابقت یا مخاصمت ہو لیکن ایک چینل کے ملازمین کا احتجاج دوسرے چینل پر کبھی نشر نہیں کیا جاتا۔

اِس کی تازہ مثال ڈان نیوز سے برطرف کیے جانے والے ملازمین اور سماء ٹی وی سے جبری طور پر برطرف کیے جانے والے ملازمین کا احتجاج ہے جس کی خبر کسی چینل نے نشر نہیں کی۔ آپس کی مسابقت کے باوجود براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم پر تمام میڈیا مالکان باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے یک ذبان اور یکجا ہو جاتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی تشہیری ادارے نے ایک چینل کو ادائیگی کرنی ہو لیکن دوسرا چینل اُس کا اشتہار چلا دے۔ اسی طرح جب ملازمین کی ملازمتوں یا تنخواہوں میں کٹوتی کی بات آتی ہے تو تمام مالکان آپس کی مسابقت بھلا کر مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنے لگتے ہیں۔

نفیس کی برطرفی اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی کی مجبوری میڈیا مالکان کے مفادات کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ شاید نفیس کی جگہ آج خالی ہو اور کل پھر کسی نفیس کو ملازمت سے برطرفی کا پروانہ مل جائے۔

متعلقہ تحاریر