خاتون کا سینئر صحافی پر ہراسگی کا الزام

پی ایف یو جے کے ویبینار میں خواتین کی غیرموجودگی پر سوالات کیے جارہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پاکستانی صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ویبینار میں خواتین کی غیرموجودگی پر سوالات کیے جارہے ہیں لیکن ایک خاتون نے نام لیے بغیر پینل میں شامل صحافی پر ہراسگی کا الزام عائد کردیا ہے۔

پاکستان میں کسی خاتون کا مرد پر ہراسگی کا الزام عائد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کچھ خواتین الزام لگاتی ہیں لیکن اسے ثابت نہیں کرسکتیں جبکہ کچھ تو نام لیے بغیر مخصوص طبقے کو نشانہ بنا کر کردار پر انگلی اٹھاتی ہیں۔

گزشتہ روز پی ایف یو جے کا ویبینار منعقد کیا گیا جس میں تمام مقررین مرد حضرات ہی تھے۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور جدوجہد میں خواتین کا ایک بڑا کردار رہا ہے لیکن اس موضوع پر بات کرنے کے لیے کوئی خاتون پینل میں موجود نہیں تھیں۔

عطیہ عباس نامی خاتون نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ویبینار کے پوسٹر کی تصویر شیئر کی جس میں بطور اسپیکر مظہرعباس سمیت دیگر سینئر صحافیوں کے نام درج تھے۔ خاتون اسپیکر کی غیر موجودگی پر سوال اٹھانا تو سمجھ آتا ہے مگر عطیہ عباس نے تصویر کے ساتھ لکھا کہ ‘ان تمام صحافیوں کے درمیان ایک ہراساں کرنے والا بھی موجود ہے۔’

اس الزام پر لوگوں نے سوالات کیے مگر خاتون نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سینئر صحافی افتخار احمد نے بھی پوسٹ پر تبصرے میں ہراساں کرنے والے کا نام پوچھا لیکن خاتون خاموش رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں سینئر صحافیوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

اس طرح کسی ایک شخص کا نام نہ لینا معززین کے پورے پینل پر انگلی اٹھانے کے برابر ہے جو کہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی شخص نے انہیں ہراسگی کا نشانہ بنایا ہے تو اس کا نام سامنے لانے کی بھی ہمت کریں نا کہ اس طرح صحافیوں کے گروہ کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔

متعلقہ تحاریر