بچوں پر عدم تشدد کا بل کیا صوبے بھی منظور کریں گے؟

بل کی منظوری کے بعد اب بچوں پر تعلیمی اداروں اور کام کرنے والی جگہوں پر تشدد کی ممانعت ہوگی۔

وفاقی حکومت نے بچوں پر عدم تشدد کا بل کثرت رائے منظور کرلیا ہے۔ وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی مہناز اکبر عزیز کا پیش کردہ بچوں پر تشدد روکنے کا بل کثرت رائے منظور کرلیا ہے۔ اس بل کے مندرجات کا اطلاق صرف اسلام آباد کے بچوں پر ہی ہوگا۔

واضح رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں 8 سال سے مخالفت کا شکار خواتین کے خلاف گھریلو تشدد سے بچاؤ کا بل 2021 گذشتہ ماہ جنوری میں کئی بحث مباحثوں کے بعد بعض ترامیم کے ساتھ منظور ہوچکا ہے۔

بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد صرف اس بناء پر اسکول جانا چھوڑ دیتی ہے کہ انہیں کلاس میں اساتذہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر بچوں کے سامنے ان کی تذلیل بھی کی جاتی ہے۔

بچوں پر عدم تشدد کے بل کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے سماجی رہنما شہزاد رائے نے کہا ہے کہ ‘حکومت نے بہت کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی کاوشوں سے جسمانی سزا سے بچوں کے تحفظ کا بل منظور ہوا۔’

سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت نے بچوں پر تشدد کے تدارک سے متعلق حزبِ اختلاف کی رکن کے بل کی حمایت کردی ہے جس کے بعد قومی اسمبلی نے بل اکثریت رائے سے منظور کرلیا ہے۔ بل میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترامیم بھی شامل کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ انتخاب سے قبل تحریک انصاف کے لیے بری خبریں

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق  شیریں مزاری نے کہا ہے کہ انہیں بل پر کوئی اعتراض نہیں۔ حکومتی ترمیم کے بعد اب شکایت براہ راست عدالت میں کی جاسکے گی۔ بل کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت میں ہوگا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس

بل کے اہم نکات کیا ہیں؟

  1. اس قانون کی منظوری کے بعد اب بچوں پر تعلیمی اداروں اور کام کرنے والی جگہوں پر تشدد کی ممانعت ہوگی۔ بچوں کو تھپڑ مارنا، چابک، لکڑی یا چمچے سے پٹائی کرنا، چھڑی اور جوتے سے ایذا پہنچانا تشدد کہلائے گا۔
  2. اس بل کی منظوری کے بعد بچوں کو جھنجھوڑنا، بالوں سے پکڑنا، کان کھینچنا، دانتوں سے کاٹنا، بچوں کو تکلیف دہ حالت میں رکھنا اور ابلتا پانی ان پرڈالنا بھی تشدد میں شمارہوگا۔
  3. بچوں کی بے عزتی کرنا، اہانت، بدنام کرنا، دھمکانا اور خوفزدہ کرنا بھی قابل سزا ہوگا۔ جسمانی سزا سے مراد ایسی سزا ہے جس میں طاقت استعمال کی جائے۔
  4. بچوں پر عدم تشدد کے بل میں کمسن کی تعریف واضح کی گئی ہے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر کے تمام افراد بچوں کی تعریف میں شامل ہوں گے۔
  5. بل میں درج ہے کہ بچوں پر تمام تعلیمی اداروں اور کام کرنے والی جگہوں پر تشدد کی ممانعت ہوگی۔ کسی نوعیت کی تکلیف یا درد پہنچانا سزا سمجھا جائے گا۔ جبکہ تعلیمی ادارے سے مراد بورڈنگ ہاؤسز، کل یا جزوقتی مراکز ہیں۔
  6. بل میں مقامِ کار سے مراد کوئی احاطہ یا کمرہ ہے جہاں کوئی تنظیم یا آجر کام کرے۔ بچے کو حق ہے کہ ان کی شخصیت اور انفرادیت کا احترام کیا جائے۔ بچوں پر تشدد کرنے والے کو ملازمت سے برطرف، معطل اور جبری ریٹائر کیا جاسکے گا اور تشدد کا مرتکب شخص مستقبل میں کسی ملازمت کا اہل تصور نہیں ہوگا۔
  7. بل کے تحت تعلیمی ادارے سے مراد ایسا ادارہ ہوگا جہاں کسی بھی قسم کی روایتی یا غیر روایتی تعلیم دی جاتی ہو۔

بل کی محرک مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے نیوز360 سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘بچوں پر تشدد روکنے کے تناظر میں یہ تاریخی بل ہے۔ اس سے پہلے بچوں پر تشدد کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔ صوبوں کو بھی ایسے بل لانے چاہئیں۔ حکومت نے بل کی حمایت کی کیونکہ ہماری ترجیح بچے ہیں۔ ہم سب نے ایوان میں بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بل منظور کیا۔’

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ‘بچوں پر جسمانی تشدد کے تدارک کے لیے قانون سازی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ جسمانی سزاؤں سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما سمیت تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی تھیں۔ بچوں پر ہونے والے جسمانی تشدد کے تدارک کے لیے قانون سازی میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، مہرالنساء مزاری اور رکن قومی اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے کلیدی کردار ادا کیا۔’

اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ یہ بل کیوں ضروری تھا۔

متعلقہ تحاریر