سینیٹ کے انتخاب میں حکمراں جماعت کو اپ سیٹ شکست

حزب اختلاف کی جماعتیں سینیٹ کے انتخابی نتائج کو اپنی فتح قرار دے رہی ہیں جبکہ حکمراں جماعت نے نتائج کو چیلینج کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے بدھ کے روز ہونے والے انتخاب میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اسلام آبادکی جنرل نشست پر اُس کے اُمید وار کو 5 ووٹس سے شکست ہوئی ہے۔

سرکاری مگر غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے جنرل نشست موجودہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی ہے۔

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے کُل 340 ووٹوں میں سے 169 ووٹ حاصل کیے جبکہ حکمراں جماعت اور اُس کی اتحادی جماعتوں کے مشترکہ اُمیدوار عبدالحفیظ شیخ 164 ووٹ حاصل کر سکے۔

ریٹرنگ افسر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کل 7 ووٹ مسترد بھی ہوئے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نتیجے پر اپنی ٹوئٹ میں لکھا ’جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ جیے بھٹو۔‘

پی ٹی آئی نے بظاہر اِن نتائج کو تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے اپنے ردعمل میں اس بات کا اشارہ دیا ہے۔

اسلام آباد سے ہی خواتین کی نشست پر پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد 174 ووٹ لے کر کامیاب رہیں۔ ان کی مقابل پاکستان مسلم لیگ ن کی فرزانہ کوثر 161 ووٹ لے سکیں۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق اس نشست پر 5 ووٹ مسترد ہوئے۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے یوسف رضا گیلانی، پی ڈی ایم اور ارکان قومی اسمبلی کو مبارک باد دی ہے۔

بدھ کی صبح ووٹنگ کے آغاز سے کب کب کیا کیا ہوا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنا ووٹ ڈالنے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور انہوں نے پارکنگ ایریا میں صحافیوں سے گفتگو کی ہے۔

بدھ کے روز سینیٹ کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ ہاوس آنے والے امیدوار اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے جب پوچھا گیا کہ انتخاب میں کس کی جیت ہوگی تو اُنہوں نے دعوی کیا کہ وہ جیت چکے ہیں۔

سینیٹ کی 37 نشستوں پر انتخاب آج ہورہا ہے جس کے لیے قومی اسمبلی، بلوچستان سندھ اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اہم ترین مقابلہ اسلام آباد میں حکومتی امیدوار وفاقی وزیر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار یو سف رضا گیلانی کے درمیان جنرل نشست پرہو رہا ہے۔

منگل کے روز یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی ایک ویڈیو لیک ہوئی تھی جس میں وہ پی ٹی آئی کے اراکان کو ووٹ ضائع کرنے کے طریقے بتا رہے تھے۔ ویڈیو لیک ہونے کے بعد علی حیدر گیلانی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ یہ ویڈیو اُن ہی کی ہے اور وہ اُن اراکین کو ووٹ ضائع کرنے کے طریقے بتا رہے تھے جو پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے یا منحرف ہو گئے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے کہا کہ ’میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ میں اراکین قومبلی اسمبلی سے کئی بار ملاقات کر چکا ہوں۔ میں نے رقم کی کوئی بات نہیں کی ہے۔ کبھی ووٹوں کی خرید و فروخت میں حصہ نہیں لیا کیونکہ ہم ضمیر کا ووٹ مانگتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ انتخاب سے قبل سندھ میں حزب اختلاف افرا تفریح کا شکار

منگل کے روز علی حیدر گیلانی کی لیک ویڈیو کے سائے میں سینیٹ انتخاب آج ہورہا ہے جبکہ ڈسکہ کی نشست پر ضمنی انتخاب 18 مارچ کو ہوگا۔ سینیٹ انتخاب میں قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 341 ہے۔ حکومت کو 181 اور اپوزیشن کو 159 میں ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

علی حیدر گیلانی کی ویڈیو لیک کے سائے میں آج ہونے والے سینیٹ کے انتخاب سے متعلق عوام نے ملی جلی رائے دی ہے۔

کس جماعت کے پاس کتنی نشستیں تھیں؟

قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پاس 157 نشستیں ہیں۔ ایم کیو ایم کے پاس 7، حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے پاس 5، جی ڈی اے کے پاس 3 اور عوامی مسلم لیگ کے پاس ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 5 اور جمہوری وطن پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ اس کے علاوہ آزاد امیدوار اسلم بھوتانی اور علی نواز شاہ حکومتی اتحاد میں شامل ہیں۔ اس طرح حکومتی اتحادیوں کی تعداد 181 بن جاتی ہے۔

حزب اختلاف کی صورتحال کا جائزہ لیں تو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پاس 83، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 55، ایم ایم اے کے پاس 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ بی این پی کے 4 اور 2 آزاد ارکان علی وزیر، محسن داوڑ بھی اپوزیشن نشستوں پر ہیں۔ اس طرح اپوزیشن بینچز پر موجود اراکین کی تعداد 160 بن جاتی ہے۔

جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی میں ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے اور یوں اپوزیشن اراکین کی تعداد 159 اور ایوان میں ووٹرز کی کل تعداد 340 ہوجاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ انتخاب میں مفاہمت کی سیاست رنگ لے آئی

اسلام آباد سے خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد اور مسلم لیگ (ن) کی فرزانہ کوثر مدمقابل ہیں۔

پنجاب کی تمام 11 نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ آج اسلام آباد کی 2، خیبرپختونخوا کی 12، سندھ کی 11 اور بلوچستان کی 12 نشستوں پر ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ ایوان بالا کے انتخاب میں جنرل نشستوں پر 39 امیدوار اور خواتین کی نشستوں پر 18 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر 13 اور اقلیتوں کی نشستوں پر 8 امیدوار میدان میں ہیں۔

حکومت اور حزب اختلاف کی جوڑ توڑ

منگل کو رات گئے تک حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ اسیر ممبران خورشید شاہ، خواجہ آصف اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے علاوہ علی وزیر آج حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

کتنے بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں؟

ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ انتخاب کے لیے بیلٹ پیپرز کی چھپائی مکمل کرلی گئی ہے جس کے تحت اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے 800 بیلٹ پیپر، سندھ کی 11 نشستوں کے لیے 600 اور خیبرپختونخوا کی 12 نشستوں کے لیے 800 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کی 12 نشستوں کے لیے 400 بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر الیکشن کمیشن سینیٹ کی 37 نشستوں کے لیے 2600 سے زیادہ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔ اسلام آباد کی 2 نشستوں کے لیے اراکین کو 2، 2 بیلٹ پیپرز دیے جائیں گے۔ سندھ کی 11 نشستوں کے لیے اراکین اسمبلی کو 3، 3 بیلٹ پیپرز  جبکہ خیبرپختونخوابلوچستان کی 12، 12 نشستوں کے لیے 4، 4 بیلٹ پیپرز فراہم کیے جائیں گے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ کے انتخاب موجودہ آئین و قانون کے تحت پرانے طریقہ کار کے مطابق خفیہ رائے شماری کے تحت ہی ہوں گے۔ ووٹنگ کا عمل صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہے گا۔

الیکشن کمیشن

منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اعلان کیا تھا کہ سینیٹ انتخاب میں تمام اراکین قومی اسمبلی ووٹ ڈالنے کے لیے ایم این اے کارڈ لازمی ساتھ لائیں بصورت دیگر ووٹ کاسٹ نہیں کیا جاسکےگا۔

منگل کی شام کو ہی الیکشن کمشن کے عملے نے سینیٹ انتخاب کے لیے قومی اسمبلی ہال کا چارج سنبھال لیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے 19 فروری کو سینیٹ اتنخاب کے لیے قومی اسمبلی ہال بطور پولنگ بوتھ استعمال کرنے کی اجازت سے متعلق تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی تھی جسے ایوان نے منظور کرلیا تھا۔

پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب کی رائے

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کا نیوز 360 سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرح سینیٹ کے لیے ضابطہ اخلاق جاری ہونا اچھی بات ہے۔ ضابطہ اخلاق میں تحریر ہے کہ صدر اور گورنروں کے دفتروں اور وسائل کو سینٹ الیکشن کےلیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ صدر اور گورنر کسی کی حمایت یا مخالفت میں مہم نہیں چلا سکتے اس کی ستائش کی جانی چاہیے۔کیونکہ صدر اور گورنروں کو الیکشن مہم میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔

احمد بلال نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے حوالے سے مزید وضاحت کے ساتھ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس سے الیکشن کمیشن مزید مضبوطی کے ساتھ ان کی مخالفت کر رہا ہے کہ اس قسم کی کوئی حرکت نہ کی جائے۔ یہ ساری باتیں خوش آئند ہیں جو الیکشن کے انعقاد کو مزید بہتر شفاف اور آزادانہ بنانے میں مدد دیں گی۔

ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد ضروری

انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل کو جتنا شفاف بنائیں گے جمہوری عمل اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ضابطہ اخلاق میں شامل نکات انتہائی اہم ہوتے ہیں لیکن اگر اس پر عمل درآمد یقینی نہ بنایا جائے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

ضابطہ اخلاق پر عمل کیا تو کیا نہ کیا تو نہ کیا

احمد بلال نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جہاں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہو یا شکایت سامنے آئے کہ جیسے پیپلز پارٹی کی طرف سے شکایت سامنے آئی ہے کہ سندھ میں گورنر صاحب نے گورنر ہاؤس میں اجلاس بھی کیا ہے۔ اور اس طرح سینیٹ کے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے تو الیکشن کمیشن کو نوٹس لے کر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ تب ہی اِس ضابطہ اخلاق کا کوئی فائدہ ہوگا ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ تو کوئی ایسی چیز ہے جس پر عمل کیا تو کیا اور نہ کیا تو نہ کیا۔

حالیہ صورتحال میں جب ویڈیو اور آڈیو لیک ہو چکی ہیں اور ممبران صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ووٹ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں تو لیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد پر سوال کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر