مستونگ کے بصارت سے محروم اخبار فروش محمد عیسیٰ
محمد عیسیٰ پاکستان میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران بےروزگار ہوگئے تھے۔
آن لائن خبروں کے دور میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ کے بصارت سے محروم اخبار فروش محمد عیسیٰ ذریعہ معاش کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ایک ہاتھ میں اخبارات سے بھرے تھیلے اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی تھامے بلوچستان کے ضلع مستونگ کی سڑکوں پر روزانہ ڈھائی کلو میٹر کا سفر طے کرنے والے 70 سالہ محمد عیسیٰ گذشتہ 35 سالوں سے اخبارات فروخت کر رہے ہیں۔
محمد عیسیٰ کے مطابق ’ایک وقت تھا جب پاکستان میں لوگ اخبارات کا انتظار کرتے تھے اور اسے حاصل کرنے کے لیے قطاریں لگتی تھیں۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ اخبارات اپنے گاہک کا انتظار کرتے ہیں۔ جب فون پر اخبار مفت دستیاب ہوتا ہے تو لوگ اخبار کے لیے 20، 30 روپے کیوں خرچ کریں گے؟‘
محمد عیسیٰ پاکستان میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران بےروزگار ہوگئے تھے کیونکہ وبائی امراض کے دوران اخبارات کی مارکیٹس بند کردی گئی تھیں۔ اس دوران لوگوں نے ان کی مدد کی تاکہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو رواں رکھ سکیں۔
70 سالہ اخبار فروش کا کہنا ہے کہ ’اخبار فروشی کا کام 1988 کے اوائل میں اپنے دوست کے مشورے سے شروع کیا تھا۔ اس وقت روزانہ 300 سے 400 اخبارات فروخت ہوجاتے تھے مگر چند سال سے اخبارات کی فروخت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ اب بمشکل 20 سے 22 اخبار فروخت ہو پاتے ہیں جس سے 220 سے 240 روپے حاصل ہوتے ہیں حالانکہ میں کئی کئی گھنٹے پیدل چل کر صدائیں لگاتا ہوں۔‘
اخبار فروش محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’ایک وقت تھا جب میں ایک دن میں 1500 روپے سے زیادہ کما لیتا تھا لیکن اب پورے دن میں 20 سے 22 اخبار فروخت کرنے میں کامیاب ہوتا ہوں جس سے 240 روپے تک حاصل ہوتے ہیں۔ میں اب اپنی ملازمت کو جاری رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کا چیلنج قبول کر لیا
ایک عرب اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عیسیٰ نے کہا کہ ‘کرونا وبا کی وجہ سے اخبارات کی اشاعت اور اس کی فروخت میں خلل پڑ رہا ہے۔ میں زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے دوسروں کی مدد کا انتظار کرنے کی بجائے اب بڑے اخبارات کے ساتھ چھوٹے اخبارات بھی فروخت کرتا ہوں۔’
چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سجائے محمد عیسیٰ اس بات سے واقف ہیں کہ اخبارات کے زوال کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ہے۔