کرونا نے قابل نوجوان کو ابدی نیند سلادیا، اہلخانہ کے خواب چکناچور

میڈیکل یونیورسٹی کے تیسرے سال میں ہی کرونا کے باعث عدنان حلیم کا انتقال ہوگیا

پاکستان میں کرونا کی وبا کے لوٹ آنے کے بعد جہاں عام لوگ بڑی تعداد میں اِس مرض کا شکار ہو رہے ہیں وہیں اِس مرض کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز بھی اِس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک جواں سال سپوت عدنان حلیم بھی تھے کی موت کے ساتھ اہلِ خانہ کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ دوست احباب سب ہی غم سے نڈھال ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں وادی سوات کے علاقے فتح پور کے رہائشی 23 سالہ عدنان حلیم نے جب میٹرک کے بعد ایف ایس سی امتحانات میں مینگورہ کالج سے سوات بورڈ میں 993 نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ بچپن سے اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب اسے حقیقت بنتا دکھائی دیا اور پھر سوات سے نکل کر خیبر میڈیکل کالج پشاور تک پہنچتے پہنچتے اس نے اپنی آنکھوں میں روشن مستقبل کے ان گنت خواب سجا لیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا کا سردیوں میں طاقتور ہوجانا مفروضہ یا حقیقت؟

عدنان حلیم

اُن کے گھر والوں نے بھی اُن سے امیدیں باندھ لی تھی، لیکن افسوس یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ میڈیکل کے تیسرے سال میں ہی کرونا جیسی وبا نے عدنان کو ابدی نیند سلا دیا ہے۔

عدنان حلیم تین بھائیوں اور دو بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھے جو نہ صرف گھر والوں کے پیارے تھے بلکہ اپنی قابلیت کی وجہ سے اسکول، کالج اور پھر یونیورسٹی میں بھی اساتذہ اور دوستوں میں کافی مقبول رہے۔ عدنان کے والد حلیم خان کا کہنا ہے کہ عدنان شروع دن سے ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ وہ خیبر ٹیچنگ اسپتال میں کرونا کے متاثرین کے لیے دن رات کام کرتا رہا اور اُسی دوران خود بھی اس وباء کا شکار ہوا۔

عدنان حلیم یونیورسٹی کا قابل ترین طالبعلم تھا اور تعلیمی سلسلے کے ساتھ ساتھ وہ ہر جگہ سب دوستوں سے آگے ہی رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دوست بھی اس کی جواں مرگی پر غمزدہ ہیں۔ اس کے کلاس فیلوز، اس کے روم میٹ، یہاں تک کہ یونیورسٹی کے ہر طالبعلم کی آنکھ عدنان حلیم کے لیے نم ہے۔

عدنان حلیم

عدنان حلیم کے ساتھی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ ایک انتہای ذہین اور قابل انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بامقصد زندگی گزارنے والا انسان تھا۔ اس کے نزدیک زندگی میں کوئی کام مشکل اور ناممکن نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اپنی قسمت سے شکست کھا کر کم عمری میں ہی دنیا سے چلا گیا۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں کرونا کی موجودہ صورتحال کے مطابق کیسز میں دن بہ دن تیزی آتی جارہی ہے۔ کرونا جیسے موذی اور خطرناک وباء سے خیبرپختونخواہ میں اب تک 22 ڈاکٹرز دوسروں کی زندگی کو بچاتے بچاتے خود زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے صوبے میں تاحال اس موذی مرض پر سنجیدگی اختیار نہیں کی جارہی۔

روزانہ درجنوں مریض اس وباء سے متاثر ہوکر اسپتالوں میں داخل ہورہے ہیں اور اموات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خیبرپختونخواہ میں اس وباء کی دوسری لہر سےمتاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بازاروں اور رش والے مقامات پر اور تقریبات میں حکومتی ایس او پیز پر عملدآرمد نہیں کرتے۔ اور نہ ہی اس وبائی صورتحال کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

عدنان حلیم

کہیں عوام کی بداحتیاطی تواکثر جگہوں پر حکومت کی جانب سے سہولیات کی عدم دستیابی، دونوں صورتوں میں لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اگراسپتالوں میں عوام حکومتی امداد کے منتظر ہیں تو کم سہولیات کے باعث مریضوں کے مسیحا بھی اس وباء سے محفوظ نہیں ہیں۔ جبکہ ڈاکٹرز سمیت نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے حفاظتی کٹ اور دیگر ضروریات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اسپتالوں کے عملے میں کرونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر جہاں بہت سے اسپتالوں میں مختلف وارڈز بند کردیئے گئے ہیں وہیں ڈیوٹی پر موجود اسٹاف کو حفاظتی کٹس کی فراہمی کو بھی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر