ریٹنگ جیت گئی، سیاست و صحافت ہار گئی

گذشتہ شب جیو نیوز کے پروگرام آپس کی بات میں پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ اور تحریک انصاف کی فردوس عاشق اعوان کے درمیان لفظی جنگ دیکھنے کو ملی۔

پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کی ٹی وی چینلز پر لڑائی اور اُس کے دوران ہاتھاپائی بھی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اِس کا تازہ ترین مظاہرہ منگل کی شب نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں دیکھنے کو ملا جس میں حزب اختلاف اور حکراں جماعت کے رہنماؤں کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی تھی۔ اِس جنگ کے خاتمے پر ریٹنگ جیت گئی، سیاست و صحافت ہار گئی۔ 

منگل کی شب جیو نیوز کے پروگرام آپس کی بات حکمراں جماعت کی رہنما اور وزیر اعلی پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان، حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ اور مسلم لیگ ن کے شیخورہ سے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف شریک تھے۔

شو کے میزبان منیب فاروق نے فردوس عاشق اعوان سے اُن کی رائے معلوم کرنے کے لیے اُن سے سوال کیا تو بیچ میں آغا رفیع اللہ نے اپنی بات مکمل کرنے کے لیے بولنا چاہا۔ ایک بار ٹوکنے کے بعد جب دوسری مرتبہ آغا رفیع اللہ نے فردوس عاشق اعوان کو ٹوکا تو وہ بھڑک اٹھیں اور اُنہیں تنبیہ کی کہ وہ نواز شریف کی وکالت نا کریں کیونکہ شو میں جاوید لطیف موجود ہیں اور وہ نواز شریف کا دفاع کر سکتے ہیں۔

اِس پر آغا رفیع اللہ اور فردوس عاشق اعوان میں ایک لفظی جنگ چھڑ گئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر زبانی حملے شروع کردیے۔ آغا رفیق اللہ نے بو پالیشے کہا تو فردوس عاشق نے لولے لنگڑے کہا۔ شو کے پروڈیوسر کو کئی بار اُن کی باتوں کو بیپ لگا کر سینسر کرنا پڑا لیکن دونوں رہنما اسی طرح ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ قومی ٹی وی چینل پر یہ مناظر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ دیکھ رہے تھے اور وہ پاکستانی سیاستدانوں کے انداز گفتگو پر سر پیٹ رہےتھے۔

آخر کار بیچ میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے دونوں رہنماؤں کے درمیان بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی اور دونوں کو تحمل مزاجی کا مشورہ دیا تو اُنہیں بھی فردوس عاشق اعوان سے ڈانٹ پڑگئی اور خاموش رہنے کی ’وارننگ‘ ملی۔

جاوید لطیف نے شو کے میزبان منیب فاروق سے اس کی شکایت کی اور میزبان نے بھی اپنی سی ادھوری کوشش کی کہ شو میں کوئی گفتگو ہو سکے لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔ اُی دوران میاں جاوید لطیف شو چھوڑ کر چلے گئے۔

جاوید لطیف کے جانے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے آپس کی بات کے میزبان منیب فاروق کو بھی آڑے ہاتھوں کیا کہ وہ حزب اختلاف کو زیادہ بولنے کا موقع دیتے ہیں اور حکمراں جماعت کو کم موقع دیتے ہیں۔ اُن پر تحریک انصاف کی رہنما نے میچ فکس کرنے کا الزام بھی لگا دیا۔

تقریباً 8 منٹ طویل اِس لفظی جنگ کا اختتام بالآخر شو کے اختتام پر ہوا اور کوئی رہنما گفتگو جاری نہیں رکھ سکا۔

یہ بھی پڑھیے

جنگ گروپ کے ملازمین کا جبری برطرفیوں کے خلاف احتجاج

قومی چینل پر قیمتی ایئر ٹائم کے 8 منٹ سیاسی رہنماؤں کی لڑائی کی نظر تو ہوگئے لیکن یہ عدم برداشت کی ایک اور مثال بھی بن گئے جو سیاست دان وقتاً فوقتاً قائم کرتے رہتے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ٹی وی چینلز پر ایسا ہوا ہو۔ اِس سے قبل پی ٹی آئی کے مرحوم رہنما نعیم الحق دو مختلف ٹی وی شوز میں عبدالقیوم سومروں اور دانیال عزیز پر ہاتھ اُٹھا چکے ہیں۔

اِس کے علاوہ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں پی ٹی آئی کے رہنما اور کشمیر کمیٹی کے موجودہ چیئرمین شہریار آفریدی اپنے سامنے بیٹھے آصف کرمانی پر حملہ اور ہو چکے ہیں۔

یہ تو تھیں سیاست دانوں کی باتیں لیکن اب سن سے زیادہ حیران کن بات نجی ٹی وی چینل اور اُس کی انتظامیہ ہے جس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اِس پروگرام کے پہلے ریکارڈ ہوجانے کے باوجود سیاست دانوں کی لڑائی والا حصہ نا صرف نشر کرے گا بلکہ پروگرام کا اختتام بھی اُسی پر کرےگا۔
واضح رہے کہ یہ سارا واقعہ آخری بریک کے بعد ہوا ہے۔ اگر چینل انتظامیہ اور پروڈکشن کا عملہ چاہتا تو پروگرام کو آخری بریک کے بعد ختم کر سکتا تھا اور اُس لڑائی کو ’آف ایئر‘ ہی رکھ سکتا تھا۔ لیکن شو کے براہ راست نشر نا کیے جانے کے باوجود لڑائی والا حصہ اُس میں شامل کرنا یقیناً صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔ اِس کا بظاہر واحد مقصد چینل کی ریٹنگ سمیٹنا ہے۔

متعلقہ تحاریر