کراچی میں اساتذہ کا 24 روز سے مسلسل احتجاج

مارچ کرنے والے آئی بی اے ہیڈ ماسٹرز کو پولیس نے روکا اور لیڈی پولیس نے خواتین اساتذہ پر تشدد کیا۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اساتذہ گذشتہ 24 روز سے احتجاج کر رہے ہیں۔ آئی بی اے ہیڈماسٹرز کی پیر کے روز کراچی میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے مارچ کرنے کی کوشش کے باوجود حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مارچ کرنے والے آئی بی اے ہیڈ ماسٹرز کو پولیس نے روکا اور لیڈی پولیس نے خواتین اساتذہ پر تشدد کیا۔

ہیڈماسٹرز کا کہنا ہے گذشتہ کئی دنوں سے اسمبلی کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔ 17 دن پریس کلب پر احتجاج کیا پھر سندھ اسمبلی کے سامنے مارچ کیا گیا۔ ایک رات کوئی حکومت نمائندہ یہاں آکر سڑک پہ گزارے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمیں مستقل کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ دوبارہ ٹیسٹ کا بول کر من پسند لوگوں کو بھرتی کروانا چاہتے ہیں۔ یہاں خواتین سڑکوں پر رات گزار رہی ہیں کیا ان حکمران کو احساس نہیں؟

ہیڈماسٹرز نے کہا کہ پیر کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر مارچ کرنے والی خواتین ہیڈماسٹرز کی تذلیل کی گئی اور انہیں گرفتار کیا گیا جو سراسر زیادتی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اساتذہ امتحان نہیں دے رہے ہیں اور بچوں کو بھی نہیں پڑھا رہے ہیں بلکہ یہ سڑک پر بیٹھے ہیں۔ 957 اساتذہ کا مسئلہ ہے اور کراچی میں احتجاج پر 30 سے 40 بیٹھے ہیں۔ حیدرآباد کی عدالتوں کے فیصلے مختلف تھے جس کی وجہ سے ابہام ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اساتذہ مجھ سے ملنا چاہیں تو میں ضرور ملوں گا۔ اساتذہ کا احترام کرتا ہوں لیکن وہ قانون کی پابندی کریں۔ ان اساتذہ کو ہم نے ہی آئی بی اے ٹیسٹ کے ذریعے میرٹ پر بھرتی کیا تھا۔ جب اساتذہ ایک مشکل امتحان دے کر آئے ہیں تو ایک اور امتحان بھی دے سکتے ہیں۔

منگل کے روز ایک بیان میں وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ احتجاج پر بیٹھے ہیڈماسٹرز عدالتی فیصلوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اساتذہ جانتے ہیں کہ ہم انہیں مستقل کرنا چاہتے ہیں لیکن عدالتی فیصلوں کی وجہ سے ایسا کرنے سے مجبور ہیں۔

انہوں نے احتجاج کرنے والے تمام ہیڈماسٹرز سے درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے اسکولوں میں جائیں اور ڈیوٹی انجام دیں جبکہ عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی بھی کریں۔

گذشتہ ماہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی سرکاری اداروں کے ملازمین نے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا تھا۔ سرکاری ملازمین نے نیوز 360 کو بتایا تھا کہ سیکرٹریٹ ملازمین مسلسل سوتیلے ملازمین تھے اور انہیں ہر بجٹ میں نظرانداز کیا جاتا تھا۔ سیکرٹریٹ کا گریڈ 16 کا ایک ملازم اگر 35 ہزار روپے تنخواہ لیتا ہے تو اسی گریڈ کے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر سمیت دیگر مراعات یافتہ اداروں میں تنخواہ 60 ہزار روپے تک بن جاتی ہے کیونکہ انہیں بہت زیادہ الاؤنسز ملتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اساتذہ کا احتجاج 19 ویں روز بھی جاری مگر سندھ حکومت غافل

سرکاری ملازمین کا شکوہ تھا کہ ایک جیسے گریڈ میں رہتے ہوئے دیگر اداروں کے ملازمین کا طرز زندگی کچھ اور تھا اور سیکرٹریٹ ملازمین کا طرز زندگی مختلف۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین پر تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت بھی کی تھی۔

بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ وہ احتجاج کرنے والے ملازمین کے ساتھ ہیں۔

متعلقہ تحاریر