پیپلزپارٹی کا مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ کرنا نئی بات نہیں

پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف بنا دیا ہے۔

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان گذشتہ کئی روز سے دوریاں پیدا ہورہی تھیں۔ تاہم اب پیپلزپارٹی نے روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہاتھ کردیا ہے۔

پاکستانی سیاست میں مختلف جماعتوں کے درمیان قربتیں بڑھنا اور دوریاں پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کبھی یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیتی ہیں تو کبھی اپنے حریف کے خلاف آخری حد تک بھی جاتی ہیں۔ ملکی سیاست میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو جوڑ توڑ کا بادشاہ کہا جاتا ہے جنہوں نے کئی مواقع پر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہاتھ کیا ہے۔

پاکستان میں حال ہی میں سینیٹ کا انتخاب ہوا ہے جس میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار صادق سنجرانی نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کر سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرلی ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اس بات پر متفق تھا کہ سینیٹ کا چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے ہوگا اور قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) کی جانب سے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہارنے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہاتھ کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کو نامزد کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنانے کے لیے 30 ارکان کی حمایت کے ساتھ درخواست جمع کروائی تھی۔ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے قاسم گیلانی کے مطابق انہیں پیپلزپارٹی کے 21، اے این پی کے 2، فاٹا کے 2، جماعت اسلامی کے ایک اور سینیٹر دلاور خان کی سربراہی میں بننے والے 4 آزاد ارکان کے گروپ کی حمایت حاصل ہے۔

چیئرمین سینیٹ انتخاب

جبکہ مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ انہیں 28 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں مسلم لیگ (ن) کے 17، جعمیت علمائے اسلام (ف) کے 5، بی این پی مینگل کے 2 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 4 ارکان شامل ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو خواب خرگوش میں مبتلا کر کے نیند سے جگا دیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ 2018 میں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے بھی پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ ظفر الحق کے بجائے صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔

2008 میں پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت بننے سے قبل ایک موقع پر نواز شریف نے کہا تھا کہ ہمارے وزیراعظم آصف زرداری ہوں گے۔ جس کے بعد میں آصف زرداری نے کہا تھا کہ ہمارے وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔ تاہم پاکستان پیپلزپارٹی نے انتخابات میں فتح کے بعد نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کے بیان کو نظر انداز کر کے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کا منصب سونپ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

یوسف رضا گیلانی ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف منتخب

اس دور میں جب وفاقی دارالحکومت میں نواز شریف کے ساتھ اتحاد زیاہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا تو آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) کو اپنا اتحادی بنالیا۔ حالانکہ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی بےنظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کہا تھا۔

پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے تقریباً ایک سال بعد یعنی 2009 میں اُس وقت کے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد آصف زرداری نے صوبے میں 2 ماہ کے لیے گورنر راج قائم کردیا تھا اور سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب بنادیا تھا۔ اس اقدام سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اہمیت ختم ہوگئی تھی۔

متعلقہ تحاریر