سلیکٹڈ کی دریافت سے اُس کا شکار ہونے تک پی ڈی ایم کا سفر

دراصل سلیکٹڈ کی اصطلاح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کے لیے متعارف کرائی تھی جو اب خود اُن کی جماعت کے رہنما کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

پاکستان میں حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جماعتیں آج کل وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے کے بجائے ایک دوسرے کے رہنماؤں کو سلیکٹڈ پکار رہی ہیں۔

پی ڈی ایم کے بیانیے میں یہ بڑی تبدیلی حال ہی میں واقع ہوئی ہے جب اور اُس کا موجب بنے ہیں وہ سیاسی معاملات جن میں بظاہر فائدہ پی ڈی ایم میں شامل صرف ایک جماعت یعنی پیپلز پارٹی کو ہوا ہے۔

پی ڈی ایم کی تشکیل کے آغاز سے ہی پیپلز پارٹی استعفوں اور لانگ مارچ سے کترا رہی تھی لیکن وہ پی ڈی ایم میں اِس وعدے پر شامل رہی کہ وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ ملک کر حکومت مخالف اقدامات میں حصہ لیتی رہے گی۔

پی ڈی ایم کی جماعتوں میں آپس کے تعلقات میں سرد مہری اُس وقت آئی جب لانگ مارچ ملتوی کرنا پڑا۔ بات صرف اتنی سی ہی نہیں بلکہ جب یوسف رضا گیلانی نے ن لیگ کے اُمیدوار کی موجودگی میں ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف بننے کا فیصلہ کیا اور بن بھی گئے تو تعلقات میں زیادہ سرد مہری آگئی اور یہاں سے یک ذبان ہوکر عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہنے والے پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک دوسرے کے رہنماؤں کو سلیکٹڈ کہنے لگیں۔

دراصل سلیکٹڈ کی اصطلاح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کے لیے متعارف کرائی تھی جو اب خود اُن کی جماعت کے رہنما کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم میں دراڑ مریم نواز اور فضل الرحمٰن دل پر لے گئے

اس بار مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز وہ پہلی سیاسی شخصیت تھیں جنہوں نے یوسف رضا گیلانی کو سلیکٹڈ کہا تھا جب وہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے تھے۔

پی ڈی ایم

سینیٹ میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ قائد حزب اختلاف پر اُس کا حق تھا۔ جب کہ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر یہ طے ہوا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی جرنل نشست پر سینیٹر منتخب کرانے کے بدلے اُس کے اُمیدوار کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنایا جائے گا۔

یہ معاملات اور زیادہ بگڑ گئے جب بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی مدد سے پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف بنوا لیا جو کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعت ہے۔

اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کھل کر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی شروع کر دی۔ ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور فیصلہ کیا کہ دونوں جماعتیں ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف کو نہیں مانیں گی۔

اِس کے جواب میں پیپلز نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو نہیں مانے گی جو کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ہیں۔

لہذا پاکستان تحریک انصاف کے منتخب وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہنے والی حزب اختلاف کی جماعتیں خود ایک دوسرے کے رہنماؤں کو سلیکٹڈ پکارنا شروع ہو گئی ہیں جو کہ یقیناً حکمراں جماعت اوراُس کے رہنماؤں کے حوصلوں کو بلند کرے گا۔

متعلقہ تحاریر