اُمت میں ’رنڈی‘ کا لفظ مناسب نہیں لگتا
ایسا ممکن نہیں ہے کہ اخبار کی شہ سرخی ادارے کے مدیر کی نظر سے گزرے بغیر چھپ جائے اگر ایسا ہوا ہے تو ذمہ دار فرد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے
پاکستانی اخبار اُمت ہمیشہ سے جارحانہ و منفرد طریقہ صحافت کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن اُس میں حال ہی میں عورت مارچ کی مناسبت سے اُمت میں چھپنے والی خبر میں رنڈی کا لفظ کئی بار استعمال کیا گیا ہے جو نا تو صحافی اقدار کے مطابق ہے اور نا ہی معاشرتی لحاظ سے مناسب لگتا ہے۔
دراصل اُمت اخبار کی خبر میں ماضی میں مسلمان خواتین کا مضبوط کردار پیش کیا گیا ہے جنہوں نے نا صرف مذہب بلکہ معاشرت میں اپنا حصہ ڈالا بلکہ اس میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ خبر کے آغاز میں فاطمہ بنت محمد احمد کا ذکر کیا گیا جو اپنے عہد کی بڑی معتبر عالمہ گزری ہیں اور فقہہ حنفیہ پر اُنہیں اتنی دسترس تھی کہ وہ اپنی مہر کے ساتھ فتاوے جاری کیا کرتی تھیں جنہیں اُس وقت سب بغیر کسی پس و پیش کے تسلیم کیا کرتے تھے۔
اُمت اخبار کی خبر میں آگے چل کر فاطمہ بنت محمد احمد کی شادی کا احوال بھی لکھا ہے جس میں اُنہوں نے اپنی مرضی اور منشا سے اپنے لیے بر تلاش کیا اور شادی کی۔ خبر میں بتایا گیا کہ اُنہوں نے شادی کے بعد فتاوے اپنی مہر کے بجائے اپنے خاوند کی مہر سے جاری کرنا شروع کردیے تھے کیونکہ وہ اُن کو اپنے سے زیادہ فاضل سمجھتی تھیں۔ البتہ ایک موقع پر اُنہوں نے اپنے خاوند کی مذہبی معاملے میں سرزنش بھی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا میں آزادی صحافت کو شدید خطرات
اِس کے بعد اُمت اخبار کی خبر میں پاکستان کی کامیاب ترین خواتین کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت خولہ رحمتہ اللہ علیہ اور خلیفہ ہارون رشید کی ملکہ زبیدہ شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح کی پاکستان کے بننے میں خدمات کو بھی سراہتے ہوئے اُنہیں مضبوط خاتون کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اِس سب کے بعد اُن خواتین کو آج کل کی خواتین سیاستدانوں، ٹی وی اینکرز کو چند ڈالروں کے عوض بک جانے والی ’رنڈیاں‘ کہا گیا۔ اُمت اخبار نے کئی یورپی ممالک کے اعدادوشمار شیئر کیے جہاں پاکستان سے زیادہ جنسی تشدد یا ریپ کے کیسز رپورٹ ہیں اور اُس کے بعد دوبارہ سوال کیا گیا کہ کیا عورت مارچ کرنے والی ’رنڈیوں کو یہ نظر نہیں آتا وہ دیگر ممالک میں ریپ کے کیسز پر کیوں احتجاج نہیں کرتیں؟‘
ایک خبر میں جہاں امہات المومنین کا تذکرہ کیا گیا ہو خواتین عالماؤں کا ادب سے ذکر کیا گیا ہو اور فاطمہ جناح جیسی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہو وہاں کسی بھی عورت کو گالی دینا خاص کر ایسی گالی جو اُس کے کردار کو مسخ کرے کیا یہ اُمت اخبار کو زیب دیتا ہے؟ کیا ایسا لکھاجانا صحافتی یا معاشرتی اقدار کے مطابق ہے؟ اُمت اخبار میں رنڈی کا لفظ مناسب نہیں لگتا۔
اُمت اخبار نے اِس خبر کو اپنی شہ سرخی میں جگہ دی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اُمت کی ادارتی پالیسی کا حصہ ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ اخبار کی شہ سرخی ادارے کے مدیر کی نظر سے گزرے بغیر چھپ جائے اگر ایسا ہوا ہے تو ذمہ دار فرد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے اور ادارے کو معافی مانگنی چاہیے جو کہ صحافی اصول ہے۔