این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں 3 بڑے چیلنجز

آج ہونے والے ضمنی انتخاب میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی انتخاب حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے چیلنجز سے بھرپور مقابلہ ہے۔ انتخابی حلقے میں ضمنی انتخاب آج ہورہا ہے جس میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 ڈسکہ میں مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار اور پاکستان تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی مد مقابل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

این اے 75 ڈسکہ پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد صحافیوں کی سیاست

تین اہم چیلنجز میں سے سب سے پہلا حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے ہے کہ ضمنی انتخاب شفاف اور پُرامن انداز میں منعقد کرایا جائے۔ اگر سنیچر کے انتخاب میں 20 فروری کی طرح بدنظمی پیدا ہوئی تو ایک مرتبہ پھر اس انتخاب کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے جس کے بعد یہ مزید طول پکڑ سکتا ہے۔

دوسرا اہم چیلنج پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے ہے کیونکہ اِس سے قبل اسی حلقے میں ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے امیدوار کو پی ڈی ایم کی حمایت حاصل تھی لیکن اب اسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حمایت حاصل نہیں ہے لہذا اُسے تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف یہ انتخاب لڑنا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس حلقے میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے اور دیگر جماعتوں کے ووٹرز یہاں نا ہونے کے برابر ہیں۔

پی ڈی ایم کے سہارے کے بغیر مسلم لیگ (ن) آج تحریک انصاف کے سامنے کھڑی ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز طبیعت کی ناسازی کے باعث انتخابی مہم نہیں چلا سکی تھیں اور اس صورتحال میں پارٹی کے بانی قائد کے بھتیجے یعنی حمزہ شہباز نے یہ ذمہ داری اٹھائی تھی۔

یہ ضمنی انتخاب حمزہ شہباز کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ یا عوامی حمایت کے ذریعے انتخاب میں فتح حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ آج کے انتخاب سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ کیا لیگی کارکنان حمزہ شہباز کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی وہ مریم نواز کو دیتے ہیں۔

این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخابات بدنظمی

قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 ڈسکہ میں 20 فروری کو ضمنی انتخاب ہوا تھا جس میں بدنظمی پیدا ہوگئی تھی اور فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے تھے جن میں کم از کم 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں بدنظمی کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخاب کو کالعدم قرار دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے مطالبہ کیا تھا کہ پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروایا جائے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ صرف ان 20 پولنگ اسٹیشنز میں ووٹنگ کرائی جائے جہاں بدنظمی ہوئی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں 18 مارچ کو انتخاب دوبارہ کرانے کا حکم دیا تھا جبکہ بعد میں انتخاب کی تاریخ کو 10 اپریل کردیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نے این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کے دوبارہ ووٹنگ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم 2 اپریل کو سپریم کورٹ نے بھی تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دیا تھا۔

متعلقہ تحاریر